کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 346
نیز فرمایا:((إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی مَیَامِنِ الصُّفُوفِ)) ’’اللہ تعالیٰ رحمت کرتے ہیں اور اس کے فرشتے ان لوگوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں،جو صفوں کے دائیں طرف نماز پڑھتے ہیں۔‘‘[1] اور فرمایا:((إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی الَّذِینَ یَصِلُونَ الصُّفُوفَ)) ’’اللہ رحمت کرتے ہیں اور اس کے فرشتے ان لوگوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں جو صفوں کو ملاتے ہیں۔‘‘[2] اور ارشاد ہے:((تَقَدَّمُوا فَأْتَمُّوا بِي وَلَیَأْتَمَّ بِکُمْ مَّنْ بَعْدَکُمْ،لَا یَزَالُ قَوْمٌ یَّتَأَخَّرُونَ حَتّٰی یُؤَخِّرَھُمُ اللّٰہُ)) ’’آگے بڑھو اور میری اقتدا کرو اور تمھارے پیچھے والے تمھاری اقتدا کریں گے اور کچھ لوگ ہمیشہ پیچھے ہوتے رہتے ہیں،یہاں تک کہ اللہ بھی انھیں پیچھے کر دیتا ہے۔‘‘[3] اذان واقامت کا بیان: 1 اذان کی تعریف: مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے اوقات کی اطلاع دینے کا نام ’’اذان‘‘ ہے۔ 2 اذان کا حکم: شہر وقصبہ جات والوں پر نماز کی اذان کہنا فرض کفایہ ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ فَلْیُؤَذِّنْ لَّکُمْ أَحَدُکُمْ وَلْیَؤُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ)) ’’جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور تمھیں تمھارا بڑا امامت کرائے۔‘‘[4] جبکہ یہ مسافروں،جنگلوں اور صحراؤں میں رہنے والوں کے لیے مسنون ہے(فرض نہیں)،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’فَإِذَا کُنْتَ فِي غَنَمِکَ أَوْ بَادِیَتِکَ فَأَذَّنْتَ لِلصَّلَاۃِ فَارْفَعْ صَوْتَکَ بِالنِّدَائِ،فَإِنَّہُ لَا یَسْمَعُ مَدٰی صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَّلَا إِنْسٌ وَّلَا شَيْئٌ إِلَّا شَھِدَ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ ’’جب تو بھیڑ بکریوں میں ہے یا دیہات میں تو اونچی آواز سے نماز کے لیے اذان کہہ،اس لیے کہ جنوں،انسانوں اور دیگر مخلوق میں سے جو بھی مؤذن کی آواز سنے گا،قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گا۔‘‘[5] 3 اذان کے الفاظ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو مخدورہ رضی اللہ عنہ کو اذان کے یہ الفاظ سکھائے،شہادتین قدرے پست آواز سے ادا کیے جائیں:
[1] [صحیح ] سنن أبي داود، الصلاۃ، باب من یستحب أن یلي الإمام في الصف:، حدیث: 676۔ [2] صحیح ابن خزیمۃ: 23/3، حدیث: 1550۔ [3] صحیح مسلم، الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف:، حدیث: 438۔ [4] صحیح البخاري، الاذان، باب إذا استووا في القراء ۃ فلیؤمھم أکبرھم، حدیث: 685، وصحیح مسلم، المساجد، باب من أحق بالإمامۃ، حدیث: 674۔ [5] صحیح البخاري، الأذان، باب رفع الصوت بالنداء، حدیث: 609۔