کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 345
5: فرض نماز کے ہوتے ہوئے نفلی نماز ادا کرنا:فرض نماز کی تکبیر ہو جائے تو نفل٭ میں داخل ہونا ناجائز ہے اور اگر نفل پڑھ رہا ہے تو اسے فورًا منقطع کر دے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’إِذَا أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ فَلَا صَلَاۃَ إِلَّا الْمَکْتُوبَۃُ‘ ’’جب نماز کی اقامت ہو جائے تو فرض کے سوا کوئی نماز نہیں ہے۔‘‘[1] 6: جو شخص نیند،سفر یا بھول جانے کی وجہ سے نماز ظہر ادا نہ کر سکے۔یہاں تک کہ جب وہ آیا تو نماز عصر کھڑی ہو چکی تھی تو اب یہ شخص کیا کرے:؟:اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔بعض کی رائے یہ ہے کہ ’’ظہر‘‘ کی نیت سے امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور سلام کے بعد عصر پڑھے،جبکہ دوسرے کہتے ہیں کہ عصر کی نیت کرے اور ساتھ شامل ہوجائے۔امام کے فارغ ہونے کے بعد ظہر پڑھے۔ 7: نمازی صف کے پیچھے اکیلا نماز نہ پڑھے:مقتدی اگر صف میں شامل نہ ہو اور پیچھے کھڑا ہو جائے تو ناجائز ہے۔ اگر کسی مجبوری کے بغیر اکیلا پیچھے نماز پڑھے تو نماز نہیں ہوئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے اسی طرح نماز پڑھی تو آپ نے فرمایا:’اِسْتَقْبِلْ صَلَاتَکَ،لَا صَلَاۃَ لِلَّذِي خَلْفَ الصَّفِّ‘ ’’نماز دوبارہ پڑھو،جو اکیلا صف کے پیچھے نماز پڑھے،اس کی نماز نہیں ہے۔‘‘[2] اگر امام کے دائیں طرف کھڑا ہو جائے تو جائز ہے۔ 8: پہلی صف افضل ہے:امام کے دائیں طرف پہلی صف میں ملنے کی کوشش کرنی چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی الصَّفِّ الْأَوَّلِ،قَالُوا:یَارَسُولَ اللّٰہِ!وَعَلَی الثَّانِي؟ قَالَ:وَعَلَی الثَّانِي‘ ’’پہلی صف والوں کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ رحمت نازل کرتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:اور دوسری صف والوں کے لیے بھی۔فرمایا:اور دوسری صف والوں کے لیے بھی۔‘‘[3] اور فرمایا:((خَیْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُھَا وَشَرُّھَا آخِرُھَا،وَخَیْرُ صُفُوفِ النِّسَائِ آخِرُھَا وَشَرُّھَا أَوَّلُھَا)) ’’مردوں کی بہترین صف پہلی ہے اور کم تر آخری اور عورتوں کی بہترین صف پچھلی ہے اور کم تر پہلی۔‘‘[4] ٭ سنن رواتب بھی شرعًا نفل میں داخل ہیں۔(الاثری)
[1] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب کراہۃ الشروع في نافلۃ:، حدیث: 710۔ [2] [صحیح] سنن ابن ماجہ، إقامہ الصلوات، باب صلاۃ الرجل خلف الصف وحدہ، حدیث: 1003، امام بوصیری نے اسے صحیح کہا ہے۔ [3] مسند أحمد: 262/5، والمعجم الکبیر للطبراني: 174/8، اس کی سند فرج بن فضالہ کی وجہ سے ضعیف ہے، تاہم صف اول والی روایت کے صحیح شواہد سنن ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں ۔ [4] صحیح مسلم، الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف:، حدیث: 440۔