کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 343
پائے اور اس کے سر اٹھانے سے پہلے رکوع کر لے تو مقتدی کی ایک رکعت پوری ہو گئی،اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یہ ہے: ’إِذَا جِئْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوھَا شَیْئًا،وَمَنْ أَدْرَکَ الرَّکْعَۃَ فَقَدْ أَدْرَکَ الصَّلَاۃَ‘ ’’جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم سجدے میں ہوں تو سجدہ کرو اور اسے شمار نہ کرو اور جو رکعت پالے اس نے نماز پالی۔‘‘[1] جبکہ علماء کی ایک دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت نہیں ہے مذکورہ حدیث ضعیف ہے اور صحیح حدیث میں قراء ت فاتحہ کو شرط قرار دیا گیا ہے،فرمایا:’لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘ ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی۔‘‘[2] 3: امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی کا فوت شدہ نماز کی قضا دینا:امام کے سلام کے بعد مقتدی فوت شدہ رکعات کو پورا کرے،چاہے تو فوت شدہ رکعات کو آخر نماز قرار دے،جیسا کہ اس حدیث سے مستفاد ہے: ((فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوا))’’جتنی رکعات پاؤ پڑھ لو اور جو رہ جائیں انھیں پورا کرلو۔‘‘[3] مثلًا:مغرب کی ایک رکعت پالی ہے تو اٹھ کر دو رکعت پڑھے،پہلی میں فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھے اور دوسری میں صرف فاتحہ۔پھر تشہد پڑھ کر سلام پھیرے اور اسی کو بعض محققین اہل علم راجح قرار دیتے ہیں۔[4] ٭ امام نووی شرح مسلم(220/1)میں لکھتے ہیں:’’اکثر روایات میں ’مَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوا‘ ہے،ایک روایت میں ’وَاقْضِ مَا سَبَقَکَ‘ ہے،امام شافعی اور جمہور علماء سلف وخلف اسی کے قائل ہیں کہ مسبوق نے جو رکعتیں امام کے ساتھ پڑھی ہیں،وہ اس کی اول نماز ہے اور سلام کے بعد باقی کی تکمیل کرے گا۔امام ابو حنیفہ اور ایک طائفہ اس کے برعکس قائل ہیں۔امام مالک سے دونوں روایتیں منقول ہیں۔اور ’وَاقْضِ مَا سَبَقَکَ‘ میں قضا سے مراد فقہاء کا اصطلاحی مفہوم نہیں بلکہ لغوی معنی ہے،یعنی ادائیگی نماز،جیسا کہ قرآن پاک میں ہے (
[1] [ضعیف] سنن أبي داود، الصلاۃ، باب الرجل یدرک الإمام ساجدا کیف یصنع، حدیث: 893، اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے لیکن اس کا ایک راوی یحییٰ ابن ابی سلیمان جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ اس حدیث سے استدلال تب ہو سکتا ہے کہ جب رکعت سے مراد رکوع لیا جائے۔( مؤلف)اس سے رکوع مراد لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ ’’رکعت‘‘ کا حقیقی مفہوم یہاں زیادہ موزوں ہے، حدیث کا مقصد یہ ہے کہ انسان نماز باجماعت کا پالینے والا تب قرار پائے گا جب ایک رکعت پوری امام کے ساتھ پڑھے گا۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ رکوع میں مل جانے سے دو رکن نماز قیام اور قراء ۃ فاتحہ رہ گئے ہیں ، لہٰذا اسے پوری رکعت کا مدرک قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (الاثری) [2] صحیح البخاري، الأذان، باب وجوب القرائۃ :، حدیث: 756۔ [3] صحیح مسلم، المساجد، باب، استحباب إتیان الصلاۃ بوقار وسکینۃ:، حدیث: 602، وصحیح البخاري، الجمعۃ، باب المشي إلی الجمعۃ، حدیث: 908 وحدیث: 636۔ [4] [صحیح ] مسند أحمد: 125/3۔