کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 337
’وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ‘ کے بجائے ’وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِکَ‘ کہے۔یعنی ’’اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘[1] ٭امامت کا بیان: 1: مردوں کی امامت:اس پر اتفاق ہے کہ مردوں کا امام مرد ہی بنے گا،عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی۔ 2: امامت کا زیادہ حق دار کون ہے؟ جماعت کی امامت کا سب سے زیادہ حق دار وہ شخص ہے جسے کتاب اللہ(قرآن مجید)دوسروں سے زیادہ یاد ہو،پھر سنت کا زیادہ عالم ہو،پھر جس نے ہجرت پہلے کی ہو،پھر وہ شخص جو اسلام لانے میں متقدم ہو اگر ان امور میں برابری ہے تو پھر وہ شخص جو عمر میں زیادہ ہو۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((یَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُھُمْ لِکِتَابِ اللّٰہِ،فَإِنْ کَانُوا فِي الْقِرَائَ ۃِ سَوَائً فَأَعْلَمُھُمْ بِالسُّنَّۃِ،فَإِنْ کَانُوا فِي السُّنَّۃِ سَوَائً فَأَقْدَمُھُمْ ھِجْرَۃً،فَإِنْ کَانُوا فِي الْھِجْرَۃِ سَوَائً فَأَقْدَمُھُمْ سِلْمًا(أَيْ إِسْلَامًا)وَفِي رِوَایَۃٍ:أَکْبَرُھُمْ سِنًّا)) ’’لوگوں کی امامت وہ کرائے جو اللہ کی کتاب کا زیادہ حافظ ہو،اگر وہ قراء ت میں برابر ہوں تو سنت کو زیادہ جاننے والا،اگر سنت کے علم میں برابر ہوں تو ہجرت میں سبقت لے جانے والا،اگر ہجرت میں برابر ہوں تو اسلام میں سبقت لے جانے والا۔ایک روایت میں ہے۔پھر بڑی عمر والا۔‘‘[2] ہاں اگر حاکم وقت،امام مسجد یا صاحب خانہ ہو تو دوسروں سے زیادہ امامت کا مستحق وہی ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا یَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي أَھْلِہِ وَلَا سُلْطَانِہِ،إِلَّا بِإِذْنِہِ))’’کوئی آدمی کسی صاحب خانہ اور حاکم کا اس کی اجازت کے بغیر امام نہ بنے۔‘‘[3] 3: بچے کی امامت:نابالغ بچہ نفل نمازوں میں امام بن سکتا ہے،فرض کے لیے نہیں۔اس لیے کہ فرض پڑھنے والا،نفل پڑھنے والے کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا اور نابالغ کی نماز نفل ہے،لہٰذا فرض میں وہ امامت نہ کرائے۔فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’لَا تَخْتَلِفُوا عَلَیْہِ‘ ’’اپنے امام سے اختلاف نہ کرو۔‘‘[4] اور یہ بھی مخالفت ہے کہ فرض پڑھنے والا نفل پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھے۔٭ ٭ مؤلف کا یہ فرمان:’’فرض پڑھنے والا نفل پڑھنے والے کے پیچھے نماز نہ پڑھے،یہ امام کی مخالفت ہے،جو ناجائز ہے‘‘ محل نظر ہے (
[1] جامع الترمذي، الصلاۃ، باب ماجاء مایقول عنددخولہ المسجد، حدیث:314، وسنن ابن ماجہ، المساجد والجماعات، باب الدعاء عند دخول المسجد، حدیث: 771۔ [2] صحیح مسلم، المساجد، باب من أحق بالإمامۃ، حدیث: 673۔ [3] صحیح مسلم، المساجد، باب من أحق بالإمامۃ، حدیث: 673۔ [4] صحیح البخاري، الأذان، باب إقامۃ الصف من تمام الصلاۃ، حدیث: 722، و صحیح مسلم، الصلاۃ، باب ائتمام المأموم بالإمام، حدیث: 414۔