کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 333
پڑھائے اور میں ان لوگوں کا رخ کروں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے،پس ان کے گھروں کو جلا دوں۔‘‘[1] ایک نابینا صحابی حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے عرض کی:اے اللہ کے رسول!مجھے مسجد میں لانے والا کوئی نہیں ہے،کیا مجھے اجازت ہے کہ مسجد میں نہ آؤں ؟ آپ نے اسے اجازت مرحمت فرمائی مگر جب وہ جانے لگے تو بلا لیا اور فرمایا:’’کیا اذان سنتے ہو؟‘‘ عرض کی:ہاں،فرمایا:’’تو پھر ضرور آؤ۔‘‘[2] ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی جماعت سے پیچھے نہیں رہتا تھا،سوائے منافق کے اور بیمار کو بھی دو انسان چلا کر لاتے تھے اور صف میں کھڑا کر دیتے تھے۔[3] 2:باجماعت نماز کی فضیلت:شریعت میں نماز باجماعت کی بڑی فضیلت آئی ہے اور اس پر اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِینَ دَرَجَۃً))’’جماعت کے ساتھ نماز،اکیلے نماز پڑھنے سے سے ستائیس درجہ زیادہ(ثواب رکھتی)ہے۔‘‘[4] اور فرمایا:((صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِي جَمَاعَۃٍ تَزِیدُ عَلٰی صَلَاتِہِ فِي بَیْتِہِ وَصَلَاتِہِ فِي سُوقِہِ بِضْعًا وَّعِشْرِینَ دَرَجَۃً،وَذٰلِکَ أَنَّ أَحَدَھُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوئَ ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ لَا یَنْھَزُہُ إِلَّا الصَّلَاۃُ،لَا یُرِیدُ إِلَّا الصَّلَاۃَ فَلَمْ یَخْطُ خَطْوَۃً إِلَّا رُفِعَ لَہُ بِھَا دَرَجَۃٌ وَّحُطَّ عَنْہُ بِھَا خَطِیئَۃٌ،حَتّٰی یَدْخُلَ الْمَسْجِدَ،فَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ کَانَ فِي الصَّلَاۃِ مَا کَانَتِ الصَّلَاۃُ تَحْبِسُہُ،وَالْمَلَائِکَۃُ یُصَلُّونَ عَلٰی أَحَدِکُمْ مَّا دَامَ فِي مَجْلِسِہِ الَّذِي صَلّٰی فِیہِ،یَقُولُونَ:اَللّٰھُمَّ!ارْحَمْہُ،اَللّٰھُمَّ!اغْفِرْلَہُ،اَللَّھُمَّ!تُبْ عَلَیْہِ،مَالَمْ یُؤْذِ فِیہِ مَالَمْ یُحْدِثْ فِیہِ)) ’’آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا،گھر اور بازار میں نماز پڑھنے سے بیس سے زیادہ درجے فضیلت رکھتا ہے۔اس لیے کہ ایک انسان جب اچھا وضو کرتا ہے اور صرف نماز کے لیے مسجد کا رخ کرتا ہے تو ہر قدم کے عوض اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے اور گناہ مٹا دیتا ہے اور مسجد میں داخل ہونے کے بعد وہ جتنی دیر نماز کا انتظار کرتا ہے،نماز ہی میں شمار ہوتا ہے اور فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں،جب تک کہ وہ نماز کی جگہ بیٹھا رہتا ہے اور اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ اے اللہ!اس کی مغفرت فرما،اس پر رحم کر،
[1] صحیح البخاري، الأذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ، حدیث: 644، وصحیح مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ الجماعۃ:، حدیث: 651۔ [2] صحیح مسلم، المساجد، باب یجب إتیان المسجد:، حدیث: 653۔ [3] صحیح مسلم، المساجد، باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الھدٰی، حدیث: 654۔ [4] صحیح البخاري، الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، حدیث:645، وصحیح مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ الجماعۃ:، حدیث: 649۔