کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 332
کے لیے بیٹھے،اگر نماز دو رکعت والی ہو،مثلا:صبح کی نماز تو تشہد اور درود اور دعائیں پڑھے اور پھر دائیں اور بائیں طرف منہ کر کے ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ‘ کہے۔ اور اگر نماز دو رکعت سے زائد والی ہے تو تشہد پڑھ کر تکبیر کہتے ہوئے کھڑا ہو جائے اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر تک اٹھائے۔اور اوپر ذکر کیے گئے طریقے کے مطابق نماز مکمل کرے۔البتہ آخری دو رکعات میں قیام میں صرف سورئہ فاتحہ پڑھے۔٭ اور آخری تشہد میں سرین پر بیٹھے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھے۔ اس حال میں کہ پاؤں کی انگلیوں کے بطون(نچلے حصے)زمین پر ٹکے ہوئے ہوں اور پھر تشہد میں درود پڑھے،پھر عذاب جہنم،عذاب نار،عذاب قبر،زندگی وموت کی آزمائشوں اور مسیح دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ چاہے،پھر دائیں طرف رخ پھیر کر ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ‘ کہے اور اسی طرح بائیں طرف بھی،چاہے دونوں طرف کوئی(انسان)نہ ہو۔ نماز باجماعت،امامت اور دیر سے آنے والے مقتدی کے احکام: ٭ نماز باجماعت کے احکام: 1 نماز باجماعت کا حکم: ہر مومن پر لازم ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے،بشرطیکہ اسے کوئی شرعی عذر نہ ہو۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’مَا مِنْ ثَلَاثَۃٍ فِي قَرْیَۃٍ وَّلَا بَدْوٍ لَّا تُقَامُ فِیھِمُ الصَّلَاۃُ إِلَّا قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطَانُ،فَعَلَیْکَ بِالْجَمَاعَۃِ،فَإِنَّمَا یَأْکُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِیَۃَ‘ ’’جس شہر یا دیہی آبادی میں تین شخص رہتے ہوں اور ان میں جماعت کا انتظام نہ ہو تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے،لہٰذا نماز باجماعت قائم کرو کیونکہ بھیڑیا ریوڑ میں سے الگ رہنے والی بھیڑ(یا بکری)کو کھا جاتا ہے۔‘‘[1] اور فرمایا:((وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ!لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ لِّیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ(لَا یَشْھَدُونَ الصَّلَاۃَ)فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوتَھُمْ)) ’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں،پھر میں نماز کا حکم دوں تو نماز کے لیے اذان کہی جائے،پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز ٭ آخری دو رکعات میں بھی سورئہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھی جا سکتی ہے،یہ بھی احادیث سے ثابت ہے۔
[1] [صحیح ] مسند أحمد: 446/6,196/5، و سنن أبي داود، الصلاۃ، باب التشدید في ترک الجماعۃ، حدیث: 547، وسنن النسائي، الإمامۃ، باب التشدید في ترک الجماعۃ، حدیث: 848، والمستدرک للحاکم: 246/1و483,482/2، اسے امام ابن خزیمہ: 371/2، حدیث: 1486، ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔