کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 320
اور اس کی برکات ہوں،ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر(بھی)سلامتی ہو،میں اقرار کرتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اقرار کرتا ہوں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘[1] 7: جہری نمازوں،یعنی مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں اور نماز فجر(کی دونوں رکعتوں)میں جہری قراء ت کرنا اور باقی رکعات میں آہستہ تلاوت کرنا۔ 8: سری نمازوں میں آہستہ قراء ت کرنا:یہ فرض نمازوں کے لیے حکم ہے۔نوافل میں آہستہ قراء ت کرنا،اگر وہ نوافل دن کے وقت پڑھ رہاہو،سنت ہے۔اگر رات کے وقت پڑھے تو جہری پڑھے گا،اِلاَّ یہ کہ اونچی آواز سے قراء ت کرنے میں کسی کو تکلیف کا خطرہ ہے تو پھر آہستہ قراء ت کرنا مسنون ہے۔ 9: آخری تشہد میں(التحیات)کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درج ذیل درود پڑھنا: ((اَللّٰھُمَّ!صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ،إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ،اَللّٰھُمَّ!بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلَی آلِ مُحَمَّدٍِ،کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیمَ،إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ)) ’’اے اللہ!محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اور آپ کی آل پر رحم وکرم فرما،جیسا کہ تونے ابراہیم(علیہ السلام)اور ان کی آل پر رحمت فرمائی تھی یقینا تو ستائش وشان والا ہے۔اے اللہ!محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اور آپ کی آل پر برکت فرما،جیسا کہ تونے ابراہیم(علیہ السلام)اور ان کی آل پر برکت فرمائی تھی۔یقینا تو ستائش و شان والا ہے۔‘‘[2] ٭ غیر مؤکدہ امور: 1 دعائے استفتاح: ((سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکَ)) ’’اے اللہ!تو پاک ہے(میں)تیری تعریف کرتا ہوں،تیرا نام برکت والا ہے،تیری عظمت بلند و بالا ہے اورتیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔‘‘[3]
[1] صحیح البخاري، الأذان، باب التشھد في الآخرۃ، حدیث: 831، وصحیح مسلم، الصلاۃ، باب التشہد في الصلاۃ، حدیث: 402۔ [2] صحیح البخاري،أحادیث الأنبیاء، باب، حدیث: 3370۔ مؤلف کی اصطلاح میں یہ سنت مؤکدہ واجب کے حکم میں داخل ہے۔ (الاثری) [3] صحیح مسلم، الصلاۃ، باب حجۃ من قال لا یجھر بالبسملۃ، حدیث: 399، یہ دعا عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے۔ اس کے علاوہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر ادعیہ واذکار مبارکہ ثابت ہیں ، مثلا: ’اَللّٰھُمَّ! بَاعِدْ بَیْنِي وَبَیْنَ خَطَایَايَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اَللّٰھُمَّ! نَقِّنِي مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ! اللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَايَ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ‘ ’’اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوری ڈال دے، اے اللہ! مجھے گناہوں سے ایسے صاف کر دے، جس طرح سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کر دیا جاتا ہے، اے اللہ! میرے گناہوں کوپانی، اولوں اور برف کے ساتھ دھو دے۔‘‘ صحیح البخاري، الأذان، باب ما یقول بعد التکبیر، حدیث : 744، وصحیح مسلم، المساجد، باب مایقال بین تکبیرۃ الإحرام والقراء ۃ، حدیث: 598۔