کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 317
4: قراء ت سورئہ فاتحہ:اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ)) ’’اس شخص کی نماز نہیں جو سورئہ فاتحہ نہیں پڑھتا۔‘‘[1] اور جو قرآن پاک میں ہے:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا﴾’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو۔‘‘[2] اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:((إِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا))
[1] صحیح البخاري، الأذان، باب وجوب القراء ۃ للإمام والمأموم في الصلوات کلھا في الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت، حدیث: 756، یہ حدیث متواتر ہے۔ اکابر محدثین کی تحقیق یہ ہے کہ سب نمازوں میں امام، مقتدی اور منفرد سب پر فاتحہ پڑھنا ضروری اور لازم ہے۔ حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ان کا مستدل ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے اور ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’التمہید‘‘ میں ، کرمانی رحمہ اللہ نے شرح بخاری میں اور قسطلانی نے بھی شرح بخاری میں ، اس حدیث کا مفہوم یہی واضح کیا ہے کہ یہ حدیث منفرد، امام اور مقتدی سب کے لیے جہری اور سری نمازوں میں فاتحۃ الکتاب کو لازم قرار دیتی ہے۔ ’قَالُوا: فَھٰذَا عَلٰی عُمُومِہِ فِي الإِْمَامِ وَالْمَأْمُومِ لِأَنَّہُ لَمْ یَخُصَّ إِمَامًا مِّنْ مَّأْمُومٍ وَّلَا مُنْفَرِدٍ قَالَہُ ابْنُ عَبْدِالْبَر فِي التَّمْھِیدِ‘ (التمھید لابن عبدالبر: 43/11)اور علامہ عبدالحی حنفی لکھنوی نے ’’السعایۃ‘‘ (ص: 303)میں لکھا ہے کہ قوی السند حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ سے مقتدی کے لیے ’’فاتحۃ الکتاب‘‘ پڑھنا ثابت ہے، اس قول میں حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ سے وہ حدیث مراد ہے جس میں نماز صبح کی صراحت ہے، دیکھیے (جامع ترمذی)اور کتاب القراء ۃ للبیہقي (ص: 47)میں صراحت ہے کہ ’لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ خَلْفَ الإِْمَامِ‘ ’’یعنی امام کے پیچھے جو فاتحۃالکتاب نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہے۔‘‘ جامع الترمذي، الصلاۃ، باب ماجاء في القرائَ ۃ خلف الإِمام، حدیث: 311۔(اگر زہری کے عنعنہ کو نظر انداز کیا جائے تو)اس کی سند صحیح ہے۔ یہ حدیث بھی مؤید ہے کہ حدیث صحیح بخاری مقتدی کو بھی شامل ہے، صحیح مسلم و موطأ امام مالک میں ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو نماز میں فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں ۔‘‘ صحیح مسلم، الصلاۃ، باب وجوب قرائَۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ:، حدیث: 395۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ اگر میں امام کے پیچھے ہوں ۔ تو فرمایا: ’’آہستہ پڑھ‘‘ پھر ایک حدیث سے استدلال کیاجس میں فاتحۃالکتاب کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ’’نماز‘‘ کہا ہے۔ اور یہ فاتحۃ الکتاب کے رکن نماز ہونے کی دلیل ہے۔ صحیح مسلم، الصلاۃ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ، حدیث: 395۔ متواتر احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: کتاب القراء ۃ للبیہقي، وجزء القراء ۃ للبخاري، وتحقیق الکلام و توضیح الکلام وغیرہ۔ اور آیت قرآن ہجرت سے پہلے مکی دور میں نازل ہوئی ہے اور یہ مذکورہ حکم نزول آیت کے بعد مدینہ منورہ میں جاری ہوا۔ نیز فاتحۃ الکتاب آہستہ پڑھنا، استماع اور انصات کے منافی نہیں ہے اور حدیث ’إِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا‘ صحیح مسلم،الصلاۃ، باب التشہد في الصلاۃ، حدیث: 404۔ میں قراء ت سے مراد حدیث مذکور کی بنا پر فاتحہ کے علاوہ کی قراء ت ہے اور یہ ’’انصات‘‘ آہستہ پڑھنے کے منافی نہیں ہے، لہٰذا راجح مسلک یہی ہے کہ امام، مقتدی اور منفرد سب ام الکتاب کی قراء ت کریں گے، جہری نماز ہو یا سری۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔ ( الاثری) [2] الأعراف 204:7۔