کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 316
((إِذَا کَانَ الدِّرْعُ سَابِغًا یُّغَطِّي ظُھُورَ قَدَمَیْھَا))’’(ہاں جائز ہے)جب اس کی قمیص اتنی لمبی ہو کہ اس کے قدموں کے ظاہر کو ڈھانپ رہی ہو۔‘‘[1] 3: قبلہ رخ ہونا:کیونکہ اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ﴾ ’’اور جہاں بھی ہو اسی(مسجد حرام)کی طرف منہ کرو۔‘‘[2] ہاں خوف یا بیماری یا اسی انداز کے کسی اور عذر کی بنا پر یہ شرط ساقط ہو جائے گی۔جیسا کہ مسافر سواری کی پیٹھ پر بیٹھ کرنفل ادا کر سکتا ہے،خواہ اس کا چہرہ قبلہ کی طرف ہو یا کسی اورطرف،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا گیا کہ جب آپ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف آرہے تھے تو آپ سواری پر نماز پڑھ رہے تھے،خواہ سواری کا رخ جدھر بھی ہوتا۔[3] نماز کے فرائض،سنتیں،مکروہات: ٭فرائض نماز: 1: صاحب طاقت پرکھڑے ہو کر نماز پڑھنا فرض ہے:اس لیے کہ کھڑا ہونے کی طاقت رکھنے والے کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَقُومُوا لِلّٰهِ قَانِتِينَ﴾’’اور اللہ کے لیے فرمانبردار بن کر کھڑے ہو جاؤ۔‘‘[4] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((صَلَّ قَائِمًا،فَإِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا،فَإِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَعَلٰی جَنْبٍ)) ’’کھڑے ہو کر نماز پڑھ،اگر طاقت نہیں تو بیٹھ کر،اگر پھر بھی طاقت نہیں تو پہلو پر لیٹ کر ہی نماز پڑھ۔‘‘[5] 2: نیت کرنا:یعنی دل میں ارادہ کرے کہ میں فلاں نماز ادا کر رہا ہوں۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘ ’’عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘[6] 3: تکبیر تحریمہ:یعنی ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطُّھُورُ،وَتَحْرِیمُھَا التَّکْبِیرُ وَتَحْلِیلُھَا التَّسْلِیمُ))’’نماز کی کنجی وضو ہے،اس کی تحریم تکبیر اور اس کی تحلیل سلام ہے۔‘‘[7]
[1] [ضعیف] سنن أبي داود، الصلاۃ، باب في کم تصلي المرأۃ، حدیث: 640، والمستدرک للحاکم: 250/1، اس کی سند ضعیف ہے دیکھیے نیل المقصود۔ [2] البقرۃ 150:2۔ [3] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز صلاۃ النافلۃ علَی الدابۃ:، حدیث: 700۔ [4] البقرۃ 238:2۔ [5] صحیح البخاري، التقصیر، باب إذا لم یطق قاعدًا صلی علٰی جنب، حدیث: 1117۔ [6] صحیح البخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي إلٰی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم :، حدیث: 1، وصحیح مسلم، الإمارۃ، باب قولہ: ’إنما الأعمال بالنیۃ‘:، حدیث: 1907۔ یاد رہے کہ زبانی نیت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ [7] [حسن] سنن أبي داود، الطھارۃ، باب فرض الوضوء، حدیث: 61، اسے امام بغوی وغیرہ نے حسن کہا ہے۔ یعنی نیت کے ساتھ تکبیر ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے سے نمازکے سوا سب کام حرام ہو جاتے ہیں اور سلام کہنے سے پھر سارے کام جو نماز کی وجہ سے حرام ہو گئے تھے، حلال ہو جاتے ہیں ۔ (الاثری)