کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 314
’فَادْعُھُمْ إِلٰی أَنْ یَّشْھَدُوا أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ،فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوا لَکَ بِذٰلِکَ فَأَخْبِرْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ‘ ’’ان کو دعوت دے کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں،اگر وہ تیری یہ بات مان لیں تو انھیں بتا دے کہ اللہ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔‘‘[1] 2: عقل مند ہونا:اس لیے کہ پاگل پر نماز فرض نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَۃٍ:عَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ،وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتّٰی یَحْتَلِمَ،وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یَعْقِلَ)) ’’تین انسان مرفوع القلم ہیں،سویا ہوا جاگنے تک،نابالغ بالغ ہونے تک اور پاگل عقل درست ہونے تک۔‘‘[2] 3: بالغ ہونا:اس لیے کہ نا بالغ بچے پر نماز فرض نہیں ہے۔جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہے،البتہ تعلیم وتربیت کے لیے بچے کو استحباباً سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا جائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’مُرُوا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِینَ،وَاضْرِبُوھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَائُ عَشْرِ سِنِینَ،وَفَرِّقُوا بَیْنَھُمْ فِي الْمَضَاجِعِ‘ ’’اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں،نماز کا حکم کرو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز کے لیے سرزنش کرو اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔‘‘[3] 4: وقت کا داخل ہونا:اس لیے کہ وقت سے پہلے نماز فرض نہیں ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾’’بے شک نماز ایمان والوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے۔‘‘[4] اور اس لیے بھی کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوقات نماز کی تعلیم دی اور فرمایا:’’(اے محمد!)اٹھیں اور(ظہر کی)نماز پڑھیں۔‘‘چنانچہ آپ نے سورج ڈھلنے پر ظہر کی نماز پڑھی،پھر عصر کے وقت آکر فرمانے لگے:’’اٹھیں اور نماز پڑھیں ‘‘ چنانچہ آپ نے جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوا،عصر کی نماز پڑھی،پھر مغرب کے وقت آکر فرمانے
[1] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب أخذ الصدقۃ من الأغنیاء:، حدیث: 1496۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، الحدود، باب في المجنون یسرق أو یصیب حدًا، حدیث: 4403، اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن ایک اور روایت صحیح سند سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ علی رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’أَمَا بَلَغَکَ أَنَّ الْقَلَمَ قَدْ وُضِعَ عَنْ ثَلَاثَۃٍ؟ عَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یُفِیقَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتّٰی یَحْتَلِمَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ‘ (مسندعلي بن الجعد، حدیث: 741)، یہ قول حکماً مرفوع ہے۔ [3] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، باب متٰی یؤمر الغلام بالصلاۃ، حدیث: 495۔ [4] النسآء 103:4۔