کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 287
((فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوھَا بِبَوْلٍ وَّلَا غَائِطٍ))’’پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پیٹھ۔‘‘[1] 6: اس کام کے لیے لوگوں کے راستے،ان کی سایہ کی جگہوں میں،پانی کے گھاٹ اور پھل دار درختوں کے پاس نہ بیٹھے۔فرمان نبوی ہے:’اِتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَۃَ:اَلْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ وَقَارِعَۃِ الطَّرِیقِ وَالظِّلِّ‘ ’’تین لعنت کے کاموں سے بچو!گھاٹ کے قریب،درمیان راستہ اور سائے میں پاخانہ کرنے سے۔‘‘[2] اسی طرح ایک اور حدیث میں پھل دار درختوں کے نیچے قضائے حاجت کی ممانعت آئی ہے۔[3] 7: قضائے حاجت کے وقت گفتگو نہ کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إِذَا تَغَوَّطَ الرَّجُلَانِ فَلْیَتَوَارَا أَحَدُھُمَا عَنْ صَاحِبِہِ،وَلَا یَتَحَدَّثَانِ عَلٰی طَوْفِھِمَا فَإِنَّ اللّٰہَ یَمْقُتُ عَلَیْہِ)) ’’دو آدمی قضائے حاجت کے لیے جائیں تو ایک دوسرے سے چھپ کر بیٹھیں اور آپس میں باتیں نہ کریں۔کیونکہ اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے۔‘‘[4] استنجا کرنے کے آداب: 1: ہڈی یا لید سے صفائی نہ کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((لَا تَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ وَلَا بِالْعِظَامِ،فَإِنَّہُ زَادُ إِخْوَانِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ))’’لید اور ہڈی سے استنجا نہ کرو،کہ یہ تمھارے بھائی جنوں کی خوراک ہے۔‘‘[5] اور ایسی چیز بھی استعمال نہ کرے جو اس مقصد کے لیے نہ ہو بلکہ اس میں کوئی اور فائدہ ہو،جیسے کپڑا یا لکھنے کے لیے کاغذ وغیرہ یا ایسی پاک چیز جسے گندگی کے ازالہ میں استعمال کرنا اس کے احترام کے خلاف ہے،جیسے کھانے کی اشیاء
[1] صحیح البخاري، الصلاۃ، باب قبلۃ أھل المدینۃ:، حدیث: 394، وصحیح مسلم، الطھارۃ، باب الاستطابۃ، حدیث: 264 واللفظ لہ۔ [2] [ضعیف] المستدرک للحاکم: 167/1، وسنن أبي داود، الطھارۃ، باب المواضع التي نھي عن البول فیھا، حدیث: 26، اس کی سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے دیکھیے سنن ابن ماجہ وغیرہ۔ البتہ سنن ابی داود میں دوسری صحیح حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’اِتَّقُوا اللَّاعِنَیْنِ قَالُوا: وَمَا اللَّاعِنَانِ یَارَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: اَلَّذِي یَتَخَلَّی فِي طَرِیقِ النَّاسِ أَوْ ظِلِّھِمْ‘ ’’دو لعنت کے سبب بننے والے کاموں سے بچو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا: جو لوگوں کے راستے اور ان کی سایہ کی جگہوں میں قضائے حاجت کرتا ہے۔‘‘ سنن أبي داود، حدیث: 25۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ جگہ جس سے لوگوں کو کوئی واسطہ پڑتا ہو، خواہ وہ پانی کے گھاٹ ہوں یا کوئی اور جگہ وہاں قضائے حاجت سے پرہیز کرے۔ (ع۔و) [3] [إسنادہ ضعیف] المعجم الأوسط للطبراني: 30/2، حدیث: 2392۔ [4] [حسن] تاریخ بغداد: 122/12، وسنن أبي داود، الطہارۃ، باب کراھیۃ الکلام عند الخلاء حدیث : 15، اس کی سند حسن ہے اسے امام ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح کہا ہے۔ [5] [صحیح] جامع الترمذي، الطھارۃ، باب ماجاء في کراھیۃ ما یستنجٰی بہ، حدیث: 18، وصحیح مسلم، الصلاۃ، باب الجہر بالقراء ۃ في الصبح:، حدیث: 450