کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 275
اور اس طرح وہ خیال کی تباہ کاری سے محفوظ رہتا ہے۔ دھوکا بازی: مسلمان ہر ایک کے لیے خیر خواہی چاہتا ہے اور اسی پر اس کی زندگی کے لمحات گزرتے ہیں،وہ کسی سے خیانت اور دھوکا نہیں کرتا،اس لیے کہ کینہ پروری،خیانت اور دھوکا دہی انسان کی مذموم اور گندی صفات ہیں۔ایمان و عمل سے حاصل کردہ نفس کی پاکیزگی ایسی صفات قبول کرنے سے یکسر انکار کرتی ہے اور یہ مذموم صفات محض’ ’شر‘‘ہیں،جن میں ’’خیر‘‘کا کوئی بھی پہلو نہیں ہے،جبکہ مسلمان خیر کے قریب اور شر سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ دھوکے کے برے نتائج: ٭ دھوکے باز انسان اپنے دوسرے بھائی کے لیے قبیح کام اور شرو فساد کو مزین کر کے پیش کرتا ہے تاکہ وہ اس میں گر پڑے۔ ٭ ایک چیز کے ظاہر کو اچھا اور درست انداز میں دکھلاتا ہے اور اس کا باطن جو کہ برا اور خراب ہوتا ہے،دوسرے کی نظروں سے اوجھل رکھتا ہے۔ ٭ دھوکا دہی کے لیے دل میں بات چھپاتا ہے اور اس کے خلاف ظاہر کرتا ہے۔ ٭ مخالف کے مال،بیوی،اولاد،خادم اور دوستوں کو چغل خوری اور عیب جوئی کے ذریعے سے خراب کرتا ہے۔ ٭ جان ومال کی حفاظت اور راز چھپانے کا وعدہ کرتا ہے مگر بعد ازاں خیانت کرتا ہے اور دھوکا دیتا ہے۔دشمنی،دھوکا اور خیانت سے اجتناب میں ایک مسلمان کا جذبہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ہوتا ہے،اس لیے کہ یہ چیزیں کتاب وسنت کی رو سے حرام ہیں۔ارشاد حق تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا﴾ ’’اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام(کی تہمت)سے جو انھوں نے نہ کیا ہو،ایذا دیتے ہیں،وہ بہت بڑا بہتان اور صریح گناہ اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہیں۔‘‘[1] اور فرمان الٰہی ہے:﴿فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ﴾’’پس جو عہد توڑ دے گا تو عہد توڑنے کا وبال اسی پر ہوگا۔‘‘[2] اور ارشاد تعالیٰ ہے:﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ﴾’’اور بری تدبیر اس کے کرنے والے ہی پر پڑتی ہے۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَنْ خَبَّبَ زَوْجَۃَ امْرِیئٍ أَوْ مَمْلُوکَہُ فَلَیْسَ مِنَّا)) ’’جو کسی کی بیوی یا غلام کو(خاوند یا سردار کے خلاف)ورغلائے،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ [4] نیز آپ کا ارشاد ہے:((أَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فِیہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا،وَمَنْ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِّنْھُنَّ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِّنَ
[1] الأحزاب 58:33۔ [2] الفتح 10:48۔ [3] فاطر 43:35۔ [4] [صحیح ] سنن أبي داود، الأدب، باب فیمن خبب مملوکا علی مولاہ، حدیث: 5170، اسے امام ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔