کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 266
کہا کہ میں ادائیگی کر دوں گا اور یہی میرا انھیں غسل دینا ہے اور یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ 4: مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رومیوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہے تھے اور مسلمانوں پر تنگی کا وقت تھا،اور اسی وجہ سے اس فوج کو ’’جیش العسرہ‘‘(تنگی کا لشکر)بھی کہتے ہیں۔اس فوج کے لیے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دس ہزار دینار،تین سو اونٹ پورے سازو سامان سمیت اور پچاس گھوڑے دیے تھے۔(بعد میں مزید صدقہ کیا تو کل مقدار نو سو اونٹ اور ایک سو گھوڑے تک جا پہنچی)اس طرح(تقریبًا)آدھی فوج کے لیے تو یہی سامان ہو گیا تھا۔[1] باب:11 تواضع و انکسار کی عظمت اور تکبر کی مذمت ذلت و بے قدری سے اجتناب کرتے ہوئے مسلمان کا شیوہ ہے کہ وہ تواضع کا عادی ہوتا ہے اور یہ اس کی بلند پایہ صفات میں سے ایک ہے،اس میں بڑائی اور تکبر نہیں ہوتا،تواضع میں رفعت اور بلندی ہے اور تکبر میں گراوٹ،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تواضع کرنے والوں کو بلندی عطا کرتا ہے اور بڑائی کرنے والے لوگوں کو گرا دیتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے:’مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ،وَمَا زَادَ اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا،وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ‘ ’’خیرات مال کو کم نہیں کرتی۔معاف کرنے پر اللہ بندے کو اور عزت عطا کرتا ہے اور جو اللہ کے لیے تواضع کرے،اللہ اسے اونچا کرتا ہے۔‘‘[2] اور فرمایا:’حَقٌّ عَلَی اللّٰہِ أَنْ لَّا یَرْتَفِعَ شَيْئٌ مِّنَ الدُّنْیَا إِلَّا وَضَعَہُ‘ ’’یہ بات اللہ پر حق ہے کہ دنیا کی جو چیز بھی اونچی ہوتی ہے،وہ اسے گرا دیتا ہے۔‘‘[3] مزید ارشاد ہے:’یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِي صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ یُّسَاقُونَ إِلٰی سِجْنٍ فِي جَھَنَّمَ یُقَالُ لَہُ:بُولَسُ تَعْلُوھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ،یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِینَۃِ الْخَبَالِ‘ ’’قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی طرح اٹھائے جائیں گے جبکہ ان کی صورتیں انسانی ہوں گی۔ہر جگہ ان
[1] جامع الترمذي، المناقب، باب في عد عثمان تسمیتہ شہیدا و تجھیزہ جیش العسرۃ، حدیث : 3703-3699، جامع ترمذی کی ان روایات میں ایک ہزار دینار اور تین سو اونٹوں کے وقف کرنے کا بیان ہے۔ واللہ اعلم۔ [2] صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع، حدیث: 2588۔ [3] صحیح البخاري، الجھاد والسیر، باب ناقۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث: 2872۔