کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 264
آتَاہُ اللّٰہُ الْحِکْمَۃَ فَھُوَ یَقْضِي بِھَا وَیُعَلِّمُھَا‘ ’’صرف دو آدمیوں کے ساتھ رشک کرنا چاہیے،ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے صحیح جگہوں پر خرچ کرتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے علم و حکمت سے نوازا ہے اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا اور تعلیم دیتا ہے۔‘‘[1] نیز فرمایا:’أَیُّکُمْ مَّالُ وَارِثِہِ أَحَبُّ إِلَیْہِ مِنْ مَّالِہِ؟ قَالُوا:یَارَسُولَ اللّٰہِ!مَا مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا مَالُہُ أَحَبُّ إِلَیْہِ،قَالَ:فَإِنَّ مَالَہُ مَا قَدَّمَ وَمَالَ وَارِثِہِ مَا أَخَّرَ‘ ’’تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پسند ہو؟‘‘ لوگوں نے کہا:’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!ہر کسی کو اپنا ہی مال پسند ہے‘‘۔تو آپ نے فرمایا:’’اس کا اپنا مال تو وہ ہے جو اس نے آگے کے لیے بھیج دیا ہے اور جو پیچھے چھوڑے جا رہا ہے وہ اس کے وارث کا مال ہے۔‘‘[2] نیز فرمان نبوی ہے:’اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ‘ ’’آگ سے بچو،اگرچہ کھجور کا ٹکڑاہی خیرات کر کے۔‘‘[3] مزید فرمایا:((مَا مِنْ یَّوْمٍ یُّصْبِحُ الْعِبَادُ فِیہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُولُ أَحَدُھُمَا:اَللّٰھُمَّ!أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا،وَیَقُولُ الْآخَرُ:اَللّٰھُمَّ!أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا)) ’’ہر صبح دوفرشتے اترتے ہیں،ایک کہتا ہے:’’اے اللہ!خرچ کرنے والے کو اس کا عوض دے‘‘اور دوسرا کہتا ہے:’’اے اللہ!بخل و کنجوسی کرنے والے کو بربادی دے۔‘‘[4] نیز ارشاد عالی ہے:’ اِتَّقُوا الشُّحَّ،فَإِنَّ الشُّحَّ أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ،حَمَلَھُمْ عَلٰی أَنْ سَفَکُوا دِمَائَ ھُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَھُمْ ‘ ’’بخل و کنجوسی سے بچو کیونکہ اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔اس کی وجہ سے انھوں نے اپنے آدمیوں کےخون بہائے اور محارم کو حلال جانا۔‘‘[5] ایک دن آپ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جو بکری ذبح کی تھی،اس کا کچھ حصہ باقی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:’مَا بَقِيَ مِنْھَا إِلَّا کَتِفُھَا‘ ’’سب ختم ہو گیا ہے،صرف کندھے کا گوشت باقی ہے۔‘‘ اس پر آپ نے فرمایا:(آپ یہ الفاظ نہ کہو)بلکہ یہ کہو:’بَقِيَ کُلُّھَا غَیْرَ کَتِفِھَا‘ ’’کندھے کے سوا سب باقی ہے۔‘‘[6]
[1] صحیح البخاري، العلم، باب الاغتباط في العلم والحکمۃ، حدیث: 73۔ [2] صحیح البخاري، الرقاق، باب ما قدم من مالہ فھو لہ، حدیث: 6442۔ [3] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب: اتقوا النار ولو بشق تمرۃ والقلیل من الصدقۃ، حدیث: 1417۔ [4] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب قول اللّٰہ تعالٰی: { فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ .....}، حدیث: 1442۔ [5] صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، حدیث: 2578۔ [6] [صحیح ] جامع الترمذي، صفۃ القیامۃ، باب قولہ في الشاۃ، حدیث: 2470، امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے واضح رہے کہ اس کے ایک راوی ابواسحاق کے سماع کی تصریح امام بخاری کی کتاب التاریخ الکبیر: 230/4، میں ہے علاوہ ازیں مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں اس حدیث کے شواہد بھی ہیں ۔