کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 254
’أَنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَیَائِي‘ ’’میں اپنے بچے کی مصیبت میں مبتلا ہوں اب بے حیائی کی مصیبت میں ہرگز گرفتار نہیں ہوں گی۔‘‘[1] ہاں ’’باحیا‘‘انسان کو کلمہ ٔ حق کہنے،علم حاصل کرنے،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے رکنا نہیں چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے ایک بار کسی کی سفارش کی تو آپ کے شرم و حیا نے آپ کو ناراضی کے انداز میں اسامہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرمانے سے نہیں روکا: ’أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِّنْ حُدُودِ اللّٰہِ؟(یَا أُسَامَۃُ!):وَأَیْمُ اللّٰہِ!لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا‘ ’’اسامہ!اللہ کی حدود میں سے ایک حد میں سفارش کرتے ہو۔:اللہ کی قسم!اگرفاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘[2] اور شرم و حیا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ مسئلہ پوچھنے میں بھی مانع نہیں ہوئی۔کہتی ہیں:اے اللہ کے رسول!بے شک اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے نہیں شرماتا۔عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر بھی غسل ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:’’ہاں!اگر وہ پانی دیکھتی ہے۔‘‘[3] یہاں آپ نے بھی جواب دینے میں شرم محسوس نہیں کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک بار خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور مہر کے زیادہ ہونے پر اعتراض کیا تو ایک عورت کہنے لگی:عمر!جو چیز اللہ ہمیں دیتا ہے تم کیوں روکتے ہو؟ اللہ کا یہ فرمان ہے:﴿وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا﴾’’تم ان میں سے کسی کو بہت مال دے چکے ہو تو اس سے کچھ(واپس)نہ لو۔‘‘[4] دیکھیے!شرم وحیا نے عورت کو عورتوں کے حقوق کے دفاع سے نہیں روکا اور عمر رضی اللہ عنہ بھی کسی قسم کی خفگی محسوس کیے بغیر معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں:عمر!تم سے تو سب لوگ زیادہ فقیہ ہیں۔[5] ایک اور موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے اور لوگوں کو بات سننے اور اطاعت کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص کہنےلگا:ہم آپ کی بات سنتے ہیں نہ اطاعت کرتے ہیں کیونکہ آپ نے دوکپڑے بنوالیے اور ہمیں ایک لباس کا کپڑا ملا۔توعمر رضی اللہ عنہ نے اونچی آواز سے اپنے بیٹے کو بلایا،بیٹا حاضر ہوا تو اس نے حقیقت حال واضح کی کہ میں نے اپنے حصے کا
[1] [ضعیف] سنن أبي داود، الجھاد، باب فضل قتال الروم علی غیرھم من الأمم، حدیث:2488، اس کی سند فرج اور عبدالخبیر وغیرہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ [2] صحیح البخاري، أحادیث الأنبیآء، باب (54)، حدیث: 3475۔ [3] صحیح البخاري، الغسل، باب إذا احتلمت المرأۃ، حدیث: 282۔ [4] النسآء 20:4۔ [5] [حسن ] مسند أبي یعلٰی بحوالہ تفسیر ابن کثیر: 640,639/1، النسآء 20:4 وقال: إسنادہ جید قوي۔