کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 250
نیز ارشاد ہے:’مَنْ لَّا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ‘ ’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘[1] اور یہ بھی فرمان نبوی ہے:’لَا تُنْزَعُ الرَّحْمَۃُ إِلَّا مِنْ شَقِيٍّ‘ ’’بد بخت سے ہی رحمت چھینی جاتی ہے۔‘‘[2] اور وہ آپ کے اس فرمان کا مصداق ہوتا ہے: ((مَثَلُ الْمُؤْمِنِینَ فِي تَوَادِّھِمْ وَتَراحُمِھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّھَرِ وَالْحُمّٰی)) ’’باہمی محبت،ایک دوسرے پر رحم اور نرمی کرنے میں ایمانداروں کی مثال ایک جسم کی ہے کہ اگر اس کا ایک عضو بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیداری اور بخار محسوس کرتا ہے۔‘‘[3] دلی رقت اور نفسانی شفقت کو،جو عفو ودرگزر اور احسان کو شامل ہو،رحمت کہتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ یہ ہمیشہ نفسانی جذبہ ہی رہے جس کا خارج میں کوئی اثر نہ ہو بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جس کے خارجی اثرات بھی ہوتے ہیں،جیسا کہ لغزش والے سے درگزر کرنا،گناہ گار کو معاف کر دینا،عاجز اور بے بس کی مدد کرنا،کمزور سے تعاون کرنا بھوکے کو کھانا کھلانا،ننگے کو لباس مہیا کرنا،مریض اور بیمار کو علاج کی سہولت مہیا کرنا اور غمگین کے ساتھ ہمدردی وغمخواری وغیرہ یہ سب رحمت کے آثار ہیں۔ شفقت و رحمت کے مظاہر: رحمت کے آثار جو ہمارے مشاہدے اور دیکھنے میں آسکتے ہیں،اس کے چند مظاہر ملاحظہ فرمایئے: 1: امام بخاری رحمہ اللہ(اپنی سند کے ساتھ)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوسیف القین رضی اللہ عنہ(لوھار)کے گھر گئے۔جو حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آیا(دایہ)کے شوہر تھے۔آپ نے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور بوسے دیے۔اس واقعہ کے بعد ایک دفعہ ہم پھر وہاں گئے جبکہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کی جاں کنی کا وقت تھا۔آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کی:اور آپ بھی اے اللہ کے رسول!(آنسو بہاتے ہیں۔)تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے ابن عوف!یہ رحمت ہے۔‘‘پھر فرمایا:’’آنکھ آنسو بہاتی ہے،دل غمگین ہے اور ہم وہی کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہوتا ہے اور اے ابراہیم!ہم تیرے جدا ہونے
[1] صحیح البخاري، الأدب،باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، حدیث: 5997 و 6013، و صحیح مسلم، الفضائل، باب رحمتہ صلی اللہ علیہ وسلم الصبیان و العیال:، حدیث: 2318۔ [2] [حسن ] سنن أبي داود، الأدب، باب في الرحمۃ، حدیث: 4942، اسے امام ترمذی نے حسن اور امام ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ [3] صحیح البخاري، الأدب، باب رحمۃ الناس والبہائم، حدیث: 6011، وصحیح مسلم، البر والصلۃ، باب، تراحم المؤمنین وتعاطفہم، حدیث: 2586 واللفظ لہ۔