کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 248
میں جگہ نہ دی جائے۔ عدل و انصاف کے ثمرات: فیصلہ میں انصاف کے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ نفوس میں اس سے اطمینان و سکون پھیلتا ہے،چنانچہ مروی ہے کہ قیصر’’بادشاہ روم‘‘نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا ایک قاصد بھیجا۔وہ مدینہ میں آیا تو پوچھا:تمھارا بادشاہ کہاں ہے۔لوگوں نے کہا ہمارا بادشاہ نہیں ہے بلکہ ہمارا تو امیر ہے اور وہ شہر سے باہر گیا ہوا ہے،چنانچہ وہ شخص تلاش میں نکل کھڑا ہوا،دیکھتا ہے کہ مسلمانوں کا امیر ریت پر درہ سرہانے رکھ کر سویا ہوا ہے۔درہ چھوٹی سی لاٹھی تھی،جسے وہ ہر وقت اپنے پاس رکھتے اور نہی عن المنکر میں اسے استعمال کرتے تھے۔قاصد نے دیکھا تو اس کے دل پر رقت طاری ہوگئی اور کہنے لگا:یہ شخص کہ دنیا کے بادشاہ جس سے کانپ رہے ہیں،اس اطمینان سے اکیلا سویا ہوا ہے۔عمر!تم نے انصاف کیا،اس لیے تم سکون اور اطمینان میں ہواور دنیا کے بادشاہ ظالم ہیں،اس لیے وہ خائف ہیں اور ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔[1] اعتدال: میانہ روی،عدل وانصاف کی نسبت عام ہے اور مسلمان کی زندگی کے تمام کاموں میں اس کی کارفرمائی ہے۔اعتدال(میانہ روی)افراط وتفریط کا درمیانی راستہ ہے اور افراط وتفریط دونوں مذموم صفتیں ہیں نہ افراط ٹھیک ہے اور نہ تفریط۔عبادات میں اعتدال یہ ہے کہ غلو وشدت سے خالی ہوں اور یہ بھی نہ ہو کہ عبادت کی کوئی اہمیت ہی ذہن وفکر میں نہ ہو،جسے اہمال وتفریط(انتہائی کوتاہی وکمی)کہہ سکتے ہیں۔ خرچ میں اعتدال اس طرح ہے کہ فضول خرچی نہ ہو اور نہ کنجوسی،اسراف وبخل کے مابین کی حالت درست ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا﴾ ’’اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی بلکہ ان کے درمیان اعتدال ہوتا ہے۔‘‘[2] لباس میں میانہ روی یہ ہے کہ وہ نہ تو فخرو تکبر کے لیے ہو اور نہ کھردرا اور بہت پیوند لگا ہوا بھدا ہو۔چال میں اعتدال یہ ہے کہ متکبرانہ نہ ہو اور نہ انتہائی مسکینی اور ذلت کے رنگ میں۔حقیقت میں اعتدال ہر میدان میں افراط وتفریط کے مابین ایک درمیانی حالت ہے۔ اعتدال استقامت کی طرح انسان کے لیے بہت بڑی فضیلت اور کردار کی بلندی کی علامت ہے۔اس کی بدولت اس کے حامل کو اللہ کی حدود پر ٹھہراؤ حاصل ہوتا ہے اور وہ فرائض کی ادائیگی میں سستی اور کمی سے محفوظ رہتا ہے اور عبادت کے کسی جزو میں افراط کا شکار بھی نہیں ہوتا۔ اعتدال سے’’وصف عفت‘‘کو جلا ملتی ہے،جس کے نتیجے میں مسلمان حلال پر اکتفا اور حرام سے اجتناب کرنے کا
[1] لم أجدہ ۔ [2] الفرقان 67:25۔