کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 246
یہ پانچ واقعات مسلمان کے جذبۂ ایثار اورحب خیرکی پوری عکاسی کرتے ہیں۔ہم نے اس لیے ان کا تذکرہ کیا ہے تاکہ عام لوگ نیکی سے محبت اور قربانی کے جذبہ سے معمور ہو کر اعلیٰ،مثالی اور اسلامی زندگی کا نمونہ پیش کریں،اس لیے کہ وہ ہر چیز سے پہلے مسلمان ہیں۔ باب:5 عدل و اعتدال عدل: مسلمان کے نقطۂ نظر میں عدل سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کا حکم بایں الفاظ دیا ہے: ﴿إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ﴾’’بے شک اللہ عدل،احسان اور رشتہ داروں کو(کچھ)دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘[1] نیز انصاف پسندوں کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی محبت کی خوشخبری دی ہے۔ارشاد ہوتا ہے:﴿وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾ ’’اور انصاف کرو،بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘[2] پھر صرف احکام ہی میں عدل وانصاف کا حکم نہیں دیا بلکہ کلام وگفتگو میں بھی عدل ملحوظ رکھنے کاحکم ارشاد فرمایا: ﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ﴾ ’’اور جب بات کہو تو انصاف کرو،چاہے وہ رشتہ دار ہی(کے خلاف)ہو۔‘‘[3] اور فرمایا:﴿إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ﴾ ’’یقینا اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو پہنچا دو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کا فیصلہ کرو۔‘‘[4] بنا بریں مسلمان قول وفعل اور فیصلہ کرنے میں انصاف کو تلاش کرتا ہے،یہ اس کی طبعی صفت ہے جو کسی صورت اس سے جدا نہیں ہو سکتی۔وہ جو بات کہتا ہے اور جو کام کرتا ہے،عدل وانصاف پر مبنی ہوتا ہے۔کسی پر ظلم وزیادتی سے بہت دور رہتا ہے،اس کی انصاف پسندی کو ہوائے نفس اور دنیا کی کوئی خواہش وشہوت متزلزل نہیں کر سکتی اور اسی وجہ سے وہ اللہ کی محبت،رضا،اعزازات اور انعامات کا مستحق قرار پاتا ہے اور اس لیے بھی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کہا ہے:’’وہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کے ہاں ان کے اعزاز واکرام کا پتہ دیا ہے،چنانچہ فرمایا:
[1] النحل 90:16۔ [2] الحجرات 9:49۔ [3] الأنعام 152:6 [4] النسآء 58:4۔