کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 237
سے نہیں دیتا اور نہ اپنی ذات کے لیے انتقام لیتا ہے،اس معاملہ میں اپنی شخصیت کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا بلکہ سب کچھ اللہ کے دین اور اس کی رضا جوئی کے لیے کرتا ہے۔اللہ کے انبیاء و رسل علیہم السلام اس کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ان میں کم ہی ہیں جنھیں اللہ کی ذات اور اس کے دین میں ابتلا اور آزمائشوں سے نہ گزرنا پڑا ہو۔عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کا حال بیان کر رہے تھے جسے اس کی قوم نے خون آلود کر دیا اور وہ اپنے چہرے سے خون بھی صاف کر رہا تھا اور کہے جارہا تھا:’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُونَ‘ ’’اے اللہ!میری قوم کی مغفرت فرما کیونکہ یہ جانتے نہیں ہیں۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایذائیں برداشت کیں،ان میں ایک یہ بھی تھی جس کی جھلک ابھی بیان ہوئی ہے۔مزید برداشت کے ایک اور انداز کا تذکرہ یوں ہے:آپ نے ایک دن مال تقسیم کیا تو ایک اعرابی(بدو)کہنے لگا،اس تقسیم میں انصاف اور اللہ کی رضا کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی تو چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا:((یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوسٰی قَدْ أُوذِيَ بِأَکْثَرَ مِنْ ھٰذَا فَصَبَرَ)) ’’اللہ موسیٰ(علیہ السلام)پر رحم کرے،انھیں اس سے بھی زیادہ ایذائیں دی گئیں مگر انھوں نے صبر کیا۔‘‘[2] خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کعبہ کے سائے تلے چادر کا سرہانا لگا کر لیٹے ہوئے تھے،ہم نے آپ کے پاس شکایت کی اور کہا:کیا آپ ہمارا بدلہ نہیں لیں گے،کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ((قَدْ کَانَ مِنْ قَبْلِکُمْ یُؤخَذُ الرَّجُلُ فَیُحْفَرُ لَہُ فِي الْأَرْضِ فَیُجْعَلُ فِیھَا فَیُجَائُ بِالْمِنْشَارِ فَیُوضَعُ عَلٰی رَأْسِہٖ فَیُجْعَلُ نِصْفَیْنِ،وَیُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِیدِ مِنْ دُونِ لَحْمِہٖ وَعَظْمِہٖ فَمَا یَصُدُّہٗ ذٰلِکَ عَنْ دِینِہٖ)) ’’تم سے پہلے لوگوں میں ایسے لوگ بھی تھے جنھیں گرفتار کر کے زمین میں گاڑ دیا جاتا اور پھر آرے سے ان کے جسموں کو سر سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا اور لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت اور ہڈیوں کے درمیان کھینچی جاتیں۔یہ بات بھی انھیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دین سے نہیں روکتی تھی۔‘‘[3] قرآن پاک میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انبیاء ورسل علیہم السلام کے تحمل وبرداشت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
[1] صحیح البخاري، أحادیث الأنبیآء، باب، حدیث: 3477، وصحیح مسلم، الجھاد والسیر، باب غزوۃ أحد، حدیث: 1792۔ [2] صحیح البخاري، فرض الخمس، باب ماکان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یعطي المؤلفۃ قلوبہم وغیرھم من الخمس ونحوہ، حدیث: 3150، وصحیح مسلم، الزکاۃ، باب إعطاء المؤلفۃ قلوبھم علَی الإسلام:، حدیث: 1062 واللفظ لہ۔ [3] صحیح البخاري، الإکراہ، باب من اختار الضرب والقتل والھوان علَی الکفر، حدیث: 6943۔