کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 235
’’ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ‘‘۔یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں اور رحمت(اترتی)ہے اور یہی لوگ سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں۔‘‘[1] حق تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ’’اور یقینا ہم(آخرت میں)صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال کا نہایت اچھا بدلہ دیں گے۔‘‘[2] ارشاد باری ہے:﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ﴾ ’’اور ہم نے ان(بنی اسرائیل)میں سے چونکہ ان لوگوں نے صبر کیا تھا،ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے(لوگوں کی)رہنمائی کرتے تھے اور ہماری آیات پر یقین رکھتے تھے۔‘‘[3] ارشاد الٰہی ہے:﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾’’صبر کرنے والوں کو ان کا ثواب بغیر حساب کے پورا دے دیا جائے گا۔‘‘[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’اَلصَّبْرُ ضِیَائٌ‘ ’’صبر ایک روشنی ہے۔‘‘[5] اور فرمایا:’مَنْ یَّسْتَعْفِفْ یُعِفَّہُ اللّٰہُ،وَمَنْ یَّسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللّٰہُ،وَمَنْ یَّتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللّٰہُ،وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَائً خَیْرًا وَّأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ‘ ’’جو(سوال سے)بچنے کی کوشش کرتا ہے،اللہ اسے بچاتا ہے اور جو(دوسروں کی دولت سے)بے نیازی اختیار کرتا ہے،اللہ اسے بے نیاز کرتا ہے اور جو صبر کی کوشش کرے،اللہ اسے صبر عطا کرتا ہے اور صبر سے بہتر اور وسیع کسی کو کوئی چیز نہیں ملی۔‘‘[6] ارشاد نبوی ہے:’عَجَبًا لِّأَمْرِ الْمُؤمِنِ،إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ لَہُ خَیْرٌ،وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ،إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ،فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ،وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ،فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ‘ ’’مومن کی یہ بات کتنی عجیب ہے کہ اس کے سارے معاملات اس کے حق میں بہتر ہوتے ہیں۔اگر اسے خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے جو اس کے لیے خیر(وبرکت)کا باعث ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے،یہ بھی اس کے لیے بہتری اور اچھائی ہے۔‘‘[7] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دختر کے فرزند کی جانکنی کا وقت تھا،بی بی نے نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا تو آپ نے ارشاد فرمایا:’’میری بیٹی کو سلام کہو اور میرا پیغام دو:
[1] البقرۃ 157-155:2۔ [2] النحل 96:16۔ [3] السجدۃ 24:32۔ [4] الزمر 10:39۔ [5] صحیح مسلم، الطھارۃ، باب فضل الوضوء، حدیث: 223۔ [6] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسألۃ، حدیث: 1469۔ [7] صحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر، حدیث: 2999۔