کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 214
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمرکو ان الفاظ کے ساتھ رخصت فرمایا:’أَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِینَکَ وَأَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیمَ عَمَلِکَ‘ ’’میں تیرا دین،امانت اور خاتمۂ عمل اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘ [1] 4: سفر ایسے تین یا چار ساتھیوں کے ساتھ اختیار کرے،جن کے بارے میں اسے یقین ہو کہ یہ سفر میں ٹھیک رہیں گے۔کیونکہ سفر انسان کے جانچنے کا ایک ذریعہ ہے،جس میں لوگوں کے اخلاق و کردار نمایاں ہوتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’اَلرَّاکِبُ شَیْطَانٌ وَّالرَّاکِبَانِ شَیْطَانَانِ وَالثَّلَاثَۃُ رَکْبٌ‘ ’’اکیلا سوار شیطان ہے،دو بھی شیطان ہیں اور تین قافلہ ہے۔‘‘[2] نیز فرمایا:’لَوْیَعْلَمُ النَّاسُ مَافِي الْوَحْدَۃِ مَا أَعْلَمُ،مَا سَارَ رَاکِبٌ بِلَیْلٍ وَّحْدَہُ‘ ’’اگر لوگ اکیلے سفر کرنے کی وہ خرابیاں جان لیں جو مجھے معلوم ہیں تو کوئی بھی رات کو اکیلا سفر نہ کرے۔‘‘[3] 5: مسلمان مسافروں کا قافلہ اپنے میں سے ایک کو امیر چن لے جو سب کے مشورے سے ان کی قیادت کے فرائض سرانجام دے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَۃٌ فِي سَفَرٍ فَلْیُأَمِّرُوا أَحَدَھُمْ‘ ’’جب تین اشخاص سفر کے لیے نکلیں تو اپنے میں سے ایک کو(اپنا)امیر بنا لیں۔‘‘[4] 6: سفر شروع کرنے سے پہلے استخارہ کی دعا پڑھے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دی ہے اور قرآنی سورت کی طرح آپ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ دعا سکھاتے تھے اور جملہ معاملاتِ زندگی میں اس پر عمل فرماتے تھے۔[5] 7: گھر سے نکلتے وقت یہ دعائیں پڑھے:’بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘ ’’اللہ کے نام سے سفر شروع کرتا ہوں،اسی پر میں نے توکل کیا ہے اور اسی کے ساتھ کسی کو برے کام سے بچنے
[1] [صحیح ] سنن أبي داود، الجہاد، باب في الدعاء عند الوداع، حدیث: 2600۔ [2] [حسن] سنن أبي داود، الجہاد، باب في الرجل یسافر وحدہ، حدیث: 2607، اسے امام ترمذی اور بغوی نے حسن جبکہ امام ابن خزیمہ، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ یعنی مطلق طورپر تن تنہا سفر کرنا شیطان کے افعال میں سے ایک فعل ہے اور شیطان بندے کو بھی اس پر ابھارتا رہتا ہے تاکہ دورانِ سفر وہ اپنے پاس کسی مسلمان بھائی کو نہ پائے جو مصیبت میں اس کے کام آئے، بیماری کی صورت میں اس کی وصیت سنے یا موت کی صورت میں اس کے کفن دفن کا انتظام کرے (وغیرہ)دو آدمیوں کے سفر کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ اگر ایک آدمی اپنے ساتھی کو سامان کے پاس چھوڑ کر کسی کام کو نکل جائے تو دونوں تنہا رہ جاتے ہیں ۔ ہاں اگر تین آدمی ہوں تو وہ ازروئے شریعت ’’قافلہ‘‘ ہیں لیکن اگر چار ہوں تو زیادہ بہتر ہے اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ سفر جس میں نماز قصر ہوتی ہے اس میں کم از کم تین آدمیوں کو مل کر سفر کرنا چاہیے اِ لَّایہ کہ کوئی مجبوری ہو۔ واللہ اعلم (ع،ر) [3] صحیح البخاري، الجہاد والسیر، باب السیر وحدہ، حدیث: 2998۔ [4] [ضعیف] سنن أبي داود،الجہاد، باب في القوم یسافرون یؤمّرون أحدھم، حدیث:2608، اس کی سند ابن عجلان کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ [5] صحیح البخاري، التہجد، باب ماجاء في التطوع مثنٰی مثنٰی، حدیث: 1162و 6382 و 7390۔ نوٹ: مؤلف حفظہ اللہ نے حدیث شریف کے عموم سے استدلال کیا ہے (جو کہ درست ہے)ورنہ اس میں بطور خاص سفر سے قبل استخارہ کرنے کی صراحت نہیں ہے۔ واللہ اعلم (ع،ر)