کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 213
’’پس تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں(کے روزوں)سے گنتی(پورا کرنے کا حکم)ہے۔‘‘[1] 6: سفر میں نفل نماز سواری پر پڑھنا جائز ہے۔جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر نفل پڑھ لیتے تھے،خواہ اس کا رخ جدھر بھی ہوتا۔[2] 7: اگر سفر میں جلدی ہو تو ظہر اور عصر،مغرب اور عشاء کی جمع تقدیم جائز ہے،یعنی ظہر اور عصر،ظہر کے وقت میں پڑھ لے اور مغرب اور عشاء،مغرب کے وقت میں اور اسی طرح جمع تاخیر بھی جائز ہے،یعنی ظہر کومؤخر کر کے عصر کے اول وقت میں پڑھے اور ساتھ ہی عصر بھی پڑھ لے اور اسی طرح مغرب اور عشاء،عشاء کے اول وقت میں پڑھ سکتا ہے۔ چنانچہ معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’غزوئہ تبوک میں ہم نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔آپ ظہرو عصر اکٹھی پڑھتے اور مغرب و عشاء بھی اکٹھی پڑھتے تھے۔‘‘[3] سفر کے آداب: 1: اگر کسی کا کوئی حق یا امانت ہو تو اس کی ادائیگی کرے،اس لیے کہ سفر میں ہلاکت کے امکانات ہوتے ہیں۔ 2: سفر خرچ حلال ذریعہ سے تیار کرے،مزید بیوی،بچوں اور والدین کا لازمی اور ضروری خرچ مہیا کر کے جائے۔ 3: بھائیوں،ساتھیوں اور اہل و عیال کے ساتھ الوداعی ملاقات کرے اور یہ دعا دے:’أَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِینَکُمْ وَأَمَانَتَکُمْ وَخَوَاتِیمَ أَعْمَالِکُمْ‘ ’’میں تمھارے دین،تمھاری امانت اورتمھارے خاتمۂ اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘ [4] اور الوداع کہنے والے اسے یہ دعا دیں:’زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقْوٰی وَغَفَرَ ذَنْبَکَ وَیَسَّرَلَکَ الْخَیْرَ حَیْثُ مَا کُنْتَ‘ ’’اللہ تجھے تقویٰ کا توشہ عطا کرے،تیرے گناہ معاف کرے اور تو جدھر بھی جائے اچھائی کو تیرے لیے آسان کرے۔‘‘[5] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’إِنَّ لُقْمَانَ قَالَ:إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی إِذَا اسْتُودِعَ شَیْئًا حَفِظَہُ‘ ’’لقمان(علیہ السلام)نے کہاکہ جو چیز اللہ کے سپرد کی جائے،وہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘[6]
[1] البقرۃ 184:2۔ [2] صحیح البخاري، التقصیر، باب صلاۃ التطوع علَی الدواب وحیثما توجہت، حدیث: 1095، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز صلاۃ النافلۃ علَی الدابۃ:، حدیث: 700۔ [3] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الجمع بین الصلا تین في الحضر، حدیث: 706۔ [4] [صحیح] سنن أبي داود، الجہاد، باب في الدعاء عند الوادع، حدیث: 2601، یہ روایت مجاہدین اور فوجیوں کو الوداع کہنے کے بارے میں ہے۔ جبکہ کسی دوست یا مہمان کو الوداع کہنے کے لیے یہ دعا آتی ہے: ’أَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکَ وَأَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیمَ عَمَلِکَ‘ (سنن أبي داود، حدیث: 2600 اور یہ حدیث صحیح ہے) [5] [حسن] جامع الترمذي، الدعوات، باب منہ [دعاء: ’زودک اللّٰہ التقوٰی:‘]، حدیث: 3444، وقال: حسن غریب۔ [6] [حسن] السنن الکبرٰی للنسائي، عمل الیوم واللیلۃ، حدیث: 10352۔