کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 197
5: دوست کی لغزشوں کو معاف اور کوتاہیوں سے صرف نظر کرے،عیوب پر پردہ ڈالے اور اس کے بارے میں حسنِ ظن کو اپنائے۔اگر وہ خفیہ یا اعلانیہ کسی گناہ کا مرتکب ہو جائے تو اس سے قطع تعلق نہ کرے اور نہ اخوت ہی میں کمی آنے دے بلکہ اس کی توبہ اور رجوع کا انتظار کرے،ہاں،اگر وہ جرم پر اصرار اور ضد کرتا ہے تو پھر اس سے تعلقات منقطع کرے یا تعلقات بحال رکھے،یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے مگر خیرخواہی اور وعظ و نصیحت برابر کرتا رہے،اس امید پر کہ وہ جرم سے رجوع کرلے گا اور اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس وقت تیرا بھائی بدل جائے اور نیکی کے حال پر قائم نہ رہے تو اس وجہ سے اسے مت چھوڑ کیونکہ اگر وہ خراب ہو سکتا ہے تو پھر ٹھیک بھی تو ہو سکتا ہے۔[1] 6: اخوت میں وفاداری،ثابت قدمی اور دوام ضروری ہے،اس لیے کہ اخوت ترک کرنے میں ثواب کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اگر تیرا یہ بھائی فوت ہو جائے توحسنِ سلوک اس کی اولاد اور اس کے دوستوں کی طرف منتقل ہو جانا چاہیے۔اسی میں اخوت کی حفاظت اور وفاداری کا دوام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑھیا کا احترام کیا جو آپ کے پاس آئی اور جب آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: ’إِنَّھَا کَانَتْ تَأْتِینَا زَمَنَ خَدِیجَۃَ،وَإِنَّ حُسْنَ الْعَھْدِ مِنَ الإِْیمَانِ‘ ’’یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایامِ زندگی میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی اور عہد کی بہترین پاسداری بھی ایمان میں داخل ہے۔‘‘[2] وفا داری کا یہ بھی تقاضا ہے کہ دوست کے دشمن سے تعلقات استوارنہ کیے جائیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:تیرا دوست تیرے دشمن کی باتیں ماننے لگ جائے تو یوں سمجھ کہ وہ دونوں تیری دشمنی میں برابر ہیں۔ 7: بھائی پر اتنی مشقت نہ ڈالے جو وہ برداشت نہ کر سکے یا وہ اس پر خوش نہ ہو اور نہ ہی اس کے مرتبہ و مال سے کوئی منفعت حاصل کرنے کی سعی کرے،اس لیے کہ جب اخوت کی بنیاد اللہ کی رضا ہے تو پھر اس کے ذریعے سے دنیاوی منافع حاصل کرنا اور اپنی ضرر رساں چیز یں دور کرنا کہاں درست ہے؟ پھر جب ایک شخص خود تکلف نہیں کر رہا تو دوسرے کو بھی نہ کرنے دے کیونکہ یہ دونوں باتیں اخوت کے مقاصد کو تباہ کرنے والی ہیں،ان کے اجروثواب میں کمی کا باعث ہوتی ہیں،حالانکہ اسی کا حصول تو ان کا اولین مقصد ہے،
[1] إحیاء علوم الدین: 222/2، وقوت القلوب: 184/2۔ [2] [حسن] المستدرک للحاکم: 16/1، حدیث: 40 وصححہ ووافقہ الذہبي، اس کے متعدد طرق ہیں ۔