کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 195
شکل میں)راستے میں کھڑا کردیا جب وہ شخص وہاں پہنچا تو(فرشتے نے)پوچھا:کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا:اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اسے ملنے جارہا ہوں۔فرشتے نے کہا:اس کا کوئی احسان ہے جسے چکانے جارہے ہو؟ اس نے کہا:اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے کہ مجھے محض اللہ کے لیے اس سے محبت ہے۔(رشتہ دار بھی نہیں ہے،محض دینی بھائی ہے)فرشتے نے کہا:مجھے اللہ نے تیرے پاس بھیجا ہے کہ تجھے اطلاع دوں کہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے محبت کرتے ہیں جس طرح تو نے اس کی خاطر اس(آدمی)سے محبت کی ہے۔‘‘ [1] اس اخوت و دوستی کے لیے صرف یہی شرط ہے کہ یہ خالص اللہ کے لیے ہو،اس میں دنیاوی اغراض و مقاصد اور مادی ضروریات بالکل داخل نہ ہوں اور اس کا باعث صرف ایمان،اسلام اور نیکی ہو۔ اسلامی اخوت کے آداب: اس میں درج ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے: 1: وہ شخص عقلمند اور سمجھدار ہو کیونکہ احمق و بے وقوف کی اخوت اور دوستی بعض اوقات نقصان بھی دے جاتی ہے،حالانکہ وہ اپنے دوست کو کوئی فائدہ ہی پہنچانا چاہتا ہے۔ 2: اچھے اخلاق و عادات کا مالک ہو،بداخلاق انسان چاہے عقلمند ہو،تاہم ذاتی اغراض کے غلبے یا غصہ کے وقت ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے حق میں برا ثابت ہو۔ 3: متقی اور پرہیز گار ہو کیونکہ فاسق جو اپنے مالک حقیقی کی اطاعت سے خالی ہے،اس سے اندیشہ ہے کہ وہ دوستی کا لحاظ نہ کرے جب وہ اللہ سے نہیں ڈرتا تو کسی اور سے کیسے ڈرے گا۔ 4: کتاب و سنت پر عامل ہو اور بدعات و خرافات سے اجتناب ضروری گردانتا ہو،اس لیے کہ بدعتی کی بدعات کی نحوست،بعض اوقات اس کے دوستوں پر بھی آن پڑ تی ہے،نیز اس لیے بھی کہ بدعتی اور اپنی خواہشاتِ نفس پر چلنے والےانسان سے تو دور رہنے کا حکم ہے اور اس سے تعلقات منقطع کر لینا لازم ہے۔پھر اس کے ساتھ دوستی کیسے ممکن ہے؟ ایک نیک و صالح بزرگ نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے آدابِ مذکورہ کو بایں الفاظ ذکر کیا ہے:بیٹے!تجھے کسی کی دوستی کی ضرورت پڑے تو ایسے شخص سے دوستی اختیار کر کہ جب تو اس کی خدمت کرے تو وہ تیرا محافظ ہو،اس کی صحبت میں رہنا تیرے لیے باعثِ زینت ہو،کوئی مشکل آ جائے تو وہ تیرا بوجھ ہلکا کرے،تو نیکی کی طرف ہاتھ بڑھائے تو وہ بھی بڑھائے،تیری اچھائی دیکھے تو اسے قابلِ اعتناء گردانے،برائی دیکھے تو تجھے اس سے روکے،تو اگر اس سے مانگے تو تجھے دے،نہ مانگے پھر بھی دے،تجھ پر کوئی مصیبت نازل ہو جائے تو ہمدردی کرے،جب توکوئی بات کہے تو تیری تصدیق کرے اگر تم دونوں کسی کام کا ارادہ کرو تو وہ تیری رائے کو اولیت دے اور اگر کسی بات میں تمھارا نزاع و جھگڑا
[1] صحیح مسلم، البروالصلۃ، باب فضل الحب في اللّٰہ، حدیث: 2567۔