کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 193
سے اس کی دشمنی و بغض ہو جو اللہ کا مبغوض ہے،یعنی اس کی پسند وہی ہو جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ہے اور اس کے ہاں وہ چیز ناپسندیدہ ہو جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کریں۔الغرض اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کی محبت بن جائے اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی اس کی دشمنی رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ أَحَبَّ لِلّٰہِ وَأَبْغَضَ لِلّٰہِ وَأَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِْیمَانَ))
’’جو شخص اللہ کے لیے محبت رکھے اور اللہ کے لیے بغض رکھے اور اللہ ہی کے لیے کوئی چیز دے اور اللہ ہی کے لیے روکے(نہ دے)تو اس نے ایمان مکمل کر لیا۔‘‘ [1]
بنابریں مسلمان جہاں اللہ کے جملہ نیک اور صالح بندوں سے محبت اور دوستی رکھتا ہے وہاں ایسے سب لوگوں سے،جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے باغی اور فاسق ہیں،دشمنی اور بغض بھی رکھتا ہے۔
اور یہ بات اس سے قطعاً مانع نہیں ہے کہ وہ اللہ کے بعض صالح اور نیک بندوں سے بطورِ خاص مزید محبت اور دوستی قائم کرے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دی ہے۔
ارشادِ نبوی ہے:’اَلْمُؤْمِنُ مَأْلَفٌ،وَلَا خَیْرَ فِیمَنْ لَّا یَأْلَفُ وَلَا یُؤْلَفُ‘
’’مومن سے دوستی کی جاتی ہے(اور)اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو نہ توخود کسی سے مانوس ہوتا ہے اور نہ اس سے کوئی مانوس ہوتا ہے۔‘‘ [2]
نیز فرمایا:((إِنَّ حَوْلَ الْعَرْشِ مَنَابِرُ مِنْ نُّورٍ،عَلَیْھَا قَوْمٌ لِّبَاسُھُمْ نُورٌ،وَوُجُوھُھُمْ نُورٌ،لَیْسُوا بِأَنْبِیَائَ وَلَا شُھَدَائَ،یَغْبِطُھُمُ النَّبِیُّونَ وَالشُّھَدَائُ،فَقَالُوا:یَارَسُولَ اللّٰہِ!حَلِّھِمْ لَنَا،فَقَالَ:الْمُتَحَابُّونَ فِي اللّٰہِ وَالْمُتَجَالِسُونَ فِي اللّٰہِ،وَالْمُتَزَاوِرُونَ فِي اللّٰہِ))
’’بے شک عرش کے اردگرد نور کے منبر ہیں،ان پر نورانی لباس اور نورانی چہروں والے لوگ ہوں گے وہ انبیاء و شہداء تو نہیں مگر انبیاء و شہداء ان پر رشک کریں گے۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)!ہمیں بھی ان کی صفات بیان کیجیے۔آپ نے فرمایا:’’یہ لوگ اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے،اللہ کی خاطرایک دوسرے کے پاس بیٹھنے والے اور اللہ ہی کے لیے ایک دوسرے کی ملاقات کو
آنے والے ہیں۔(نسائی اور یہ صحیح حدیث ہے۔)‘‘ [3]
[1] [حسن] سنن أبي داود، السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الإیمان ونقصانہ، حدیث: 4681، اس کا ترمذی وغیرہ میں ایک شاہد بھی ہے جسے امام حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔
[2] [حسن] مسند أحمد: 400/2، والسنن الکبرٰی للبیہقي: 237/10۔ اگرچہ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے لیکن ان کی سند سے ابوصالح کا واسطہ گر گیا ہے جس وجہ سے حافظ ذہبی نے ان کا تعاقب کیا ہے۔
[3] مؤلف حفظہ اللہ نے کہا ہے کہ اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے لیکن مجھے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ امام نسائی کی سنن صغریٰ اور کبریٰ دونوں میں نہیں ملی، البتہ حافظ عراقی، تخریج الأحیاء: 159/2میں لکھتے ہیں : اسے امام نسائی نے سنن کبریٰ میں روایت کیا ہے اور اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں ۔ تاہم السنن الکبرٰی، کتاب التفسیر، حدیث: 11236، میں ایک روایت اس مفہوم کے قریب ہے جس کی سند صحیح ہے اور مسند أحمد: 343/5 میں بھی تقریباً انھی الفاظ کے ساتھ ایک حدیث مروی ہے۔ واللہ اعلم جبکہ قوت القلوب (: 182/2)میں یہ روایت موجود ہے۔