کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 190
’’تم زمین والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ [1] 2: شفقت و رحم سے برتاؤ کرنا چاہیے،ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جانور(پرندہ)کو پکڑ کر اسے اپنے تیروں سے تختۂ مشق بنا ئے ہوئے ہیں۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَعَنَ مَنِ اتَّخَذَ شَیْئًا فِیہِ الرُّوحُ غَرَضًا‘ ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو زندہ چیز کو(تیر اندازی کے لیے)ہدف بناتا ہے۔‘‘[2] اسی طرح آپ نے جانوروں کو باندھ کر قتل کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔[3] ایک دن آپ نے حمرہ،یعنی سرخ چڑیا کو دیکھا کہ اپنے بچوں کی تلاش میں سرگرداں ہے جو ایک صحابی(رضی اللہ عنہ)نے گھونسلے سے اٹھا لیے تھے تو آپ نے فرمایا: ((مَنْ فَجَّعَ ھٰذِہِ بِوَلَدِھَا؟ رُدُّوا وَلَدَھَا إِلَیْھَا))’’کس نے اسے اس کے بچوں کی وجہ سے دکھ دیا ہے۔اس کے بچے اسے واپس کر دو۔‘‘ [4] 3: ذبح یا قتل کے وقت جانور کو راحت و آرام پہنچانا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الإِْحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ،فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ،وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ،وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَہُ،فَلْیُرِحْ ذَبِیحَتَہُ)) ’’بے شک اللہ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنا فرض کر دیا ہے۔جب تم قتل کرو تو اچھے انداز سے قتل کرو اور جب تم جانور ذبح کرو تو اچھے انداز سے ذبح کرو اور چاہیے کہ تمھاراہر فرداپنے ذبیحہ کو راحت دے اور اپنی چھری کو تیز کر لے۔‘‘ [5] 4: جانور کو مارنا،بھوکا رکھنا،اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ لادنا،شکل بگاڑ دینا اور اسے آگ سے جلانا،غرضیکہ ہر قسم کے عذاب دینے سے احتراز کرنا چاہیے۔حدیث نبوی ہے: ((عُذِّبَتِ امْرَأَۃٌ فِي ھِرَّۃٍ رَبَطَتْھَا حَتّٰی مَاتَتْ فَدَخَلَتْ فِیھَا النَّارَ،لَا ھِيَ أَطْعَمَتْھَا وَلَا سَقَتْھَا إِذْ حَبَسَتْھَا،وَلَا ھِيَ تَرَکَتْھَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ))
[1] [حسن] جامع الترمذي، البروالصلۃ، باب ماجاء في رحمۃ الناس، حدیث: 1924، والمعجم الکبیر للطبراني: 356/2، حدیث: 2502، والمستدرک للحاکم: 248/4، حدیث: 7631۔ بسند آخرامام حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ سنن أبي داود (حدیث: 4941)وغیرہ میں اس کا ایک حسن شاہد بھی ہے۔ [2] صحیح مسلم، الصید والذبائح، باب النہي عن صبر البہائم، حدیث: 1958۔ [3] صحیح مسلم، الصیدو الذبائح، باب النہي عن صبر البہائم، حدیث: 1959۔ [4] [حسن] سنن أبي داود، الجہاد، باب فيکراہیۃ حرق العدو بالنار، حدیث: 2675، اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ [5] صحیح مسلم، الصید والذبائح، باب الأمر بإحسان الذبح والقتل:، حدیث: 1955۔