کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 189
پر مجبور کر دو۔‘‘ [1] 12: کافر کے ساتھ عام آدابِ زندگی میں،چاہے واجب یا غیر واجب چیز یں ہوں،مشابہت نہیں کرنی چاہیے،مثلاً:داڑھی منڈانا کافر کا وطیرہ ہے جبکہ مسلمان داڑھی بڑھاتا ہے۔کافر اسے رنگتا نہیں ہے،جبکہ مسلمان کو چاہیے کہ داڑھی کے بال رنگے۔لباس،پگڑی،ٹوپی وغیرہ میں بھی کافر کے ساتھ مشابہت نہ کرے۔ارشادِ نبوی ہے: ’مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ‘ ’’جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت کرتا ہے،وہ انھیں میں سے ہے۔‘‘[2] نیز فرمایا:’خَالِفُوا الْمُشْرِکِینَ،أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَوْفُوا اللِّحٰی‘’’مشرکین کی مخالفت کرو،مونچھیں کٹاؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔‘‘ [3] مزید فرمایا:’إِنَّ الْیَھُودَ وَالنَّصَارٰی لَا یَصْبُغُونَ فَخَالِفُوھُمْ‘ ’’یہود و نصارٰی بال نہیں رنگتے،تم ان کی مخالفت کرو۔‘‘ [4] اس حدیث شریف سے داڑھی یا سر کے بالوں کو زرد یا سرخ رنگ سے رنگنا مراد ہے،اس لیے کہ سیاہ رنگ استعمال کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ حدیثِ نبوی ہے:’غَیِّرُوا ھٰذَا۔الشَّعْرَ الْأَبْیَضَ۔بِشَيْئٍ وَّاجْتَنِبُوا السَّوَادَ‘ ’’یہ سفید بال تبدیل کرو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔‘‘ [5] جانوروں کے حقوق: مسلمان کا شیوہ ہے کہ وہ جانوروں کا خیال رکھتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے عطا کردہ جذبۂ رحم کے تحت درج ذیل امور پر عمل کرنے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ 1: بھوک اور پیاس میں ان کی خوراک اور پانی کا وافر انتظام کرنا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’فِي کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ حَرّٰی أَجْرٌ‘ ’’ہر زندہ،جگر والی چیز(سے اچھا سلوک کرنے)میں ثواب ہے۔‘‘ [6] نیز فرمایا:’مَنْ لَّا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ‘ ’’جو(مخلوق پر)رحم نہیں کرتا،اس پر(بھی)رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ [7] مزید فرمایا:’اِرْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَّنْ فِي السَّمَائِ‘
[1] صحیح مسلم، السلام، باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام:، حدیث: 2167۔ [2] [حسن] سنن أبي داود، اللباس، باب في لبس الشہرۃ، حدیث: 4031، اسے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں حسن کہا ہے۔ [3] صحیح البخاري، اللباس، باب تقلیم الأظفار، حدیث: 5892، وصحیح مسلم، الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ، حدیث: 259 واللفظ لہ۔ [4] صحیح البخاري، اللباس، باب الخضاب، حدیث: 5899، وصحیح مسلم، اللباس، باب في مخالفۃ الیہود في الصبغ، حدیث: 2103۔ [5] صحیح مسلم، اللباس، باب استحباب خضاب الشیب بصفرۃ وحمرۃ:، حدیث: 2102۔ [6] [حسن] مسند أحمد : 223,222/2، وصحیح البخاري، المظالم، باب الآبار علی الطرق إذا لم یتأذّ بہا، حدیث: 2466، وصحیح مسلم، السلام، باب فضل سقي البھائم:، حدیث: 2244۔ [7] صحیح البخاري، الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، حدیث: 5997، وصحیح مسلم، الفضائل، باب رحمتہ صلی اللہ علیہ وسلم الصبیان والعیال:، حدیث: 2318۔