کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 188
’’نہ مسلمان عورتیں ان(کافروں)کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ(کافر مرد)ان کے لیے حلال ہیں۔‘‘ [1] اور فرمایا:﴿وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا﴾’’اور مشرک مردوں کو مومن عورتوں کا نکاح نہ دو،یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔‘‘ [2] البتہ کتابیہ عورت کے ساتھ مسلمان مرد کا نکاح اس حکمِ ربانی کی بنا پر جائز ہے: ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ﴾ ’’اور تم سے پہلے جو لوگ کتاب دیے گئے ان کی شریف عورتیں(تمھارے لیے حلال ہیں)جب تم گھر آباد کرنے کے لیے ان کا حق مہر ادا کرو،نہ کہ کھلی بدکاری اور مخفی آشنائی کے لیے۔‘‘ [3] 9: کافر چھینک مارے اور اللہ کی حمد(تعریف)بیان کرے تو جواب میں مسلمان کہے: ’یَھْدِیکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ‘ ’’اللہ تمھیں ہدایت دے اور تمھارے حال کو درست کرے۔‘‘ [4] اس لیے کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اس غرض سے چھینک مارتے تھے کہ آپ ان کے لیے رحم کی دعا کریں گے۔مگر آپ جواب میں ’یَھْدِیکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ‘ ہی فرماتے۔(حوالہ مذکورہ) 10: کافر کو سلام کی ابتدا نہ کرے اگر وہ سلام کہتا ہے تو جواب میں صرف ’’وَعَلَیْکُمْ‘‘ کہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:’إذَا سَلَّمَ عَلَیْکُمْ أَھْلُ الْکِتَابِ فَقُولُوا:وَعَلَیْکُمْ‘ ’’اہل کتاب اگر تمھیں سلام کہیں تو جواب میں وعلیکم کہو۔‘‘ [5] 11: راستے میں چلتے وقت اسے تنگ راستے کی طرف مجبور کر دے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’لَا تَبْدَأُوا الْیَھُودَ وَلَا النَّصَارٰی بِالسَّلَامِ،وَإِذَا لَقِیتُمْ أَحَدَھُمْ فِي طَرِیقٍ فَاضْطَرُّوہُ إِلٰی أَضْیَقِہِ‘ ’’یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں ابتدا نہ کرو۔اگر راستہ میں ملاقات ہو جائے تو اسے تنگ راستے پر جانے
[1] الممتحنۃ 10:60۔ [2] البقرۃ 221:2۔ [3] المآئدۃ 5:5۔ پوری آیتِ مبارکہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی یا یہودی عورت سے نکاح مشروط طورپر جائز ہے، مثلاً: کتابیہ پاک دامن ہو، نکاح کے جملہ تقاضے پورے کیے جائیں اور خاوندیا اولاد کے بیوی کے دین کی جانب مائل ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ واللہ اعلم (ع،ر) [4] سنن أبيداود، الأدب، باب کیف یشمت الذمي،حدیث: 5038، وجامع الترمذي، الأدب، باب ماجاء کیف یشمت العاطس، حدیث: 2739 وقال: حسن صحیح۔ اس میں سفیان ثوری کا عنعنہ ہے جبکہ صحیح البخاري: الأدب، باب إذا عطس کیف یشمت، حدیث: 6224سے اس دعا کا عام مسلمانوں کے لیے ثبوت ملتا ہے۔ اور راجح بات بھی یہی ہے۔ [5] صحیح البخاري، الاستئذان، باب کیف الرد علٰی أہل الذمۃ بالسلام؟ حدیث: 6258، وصحیح مسلم، السلام، باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام:، حدیث: 2163۔