کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 181
رکھا،پھر اس سے پورا کام لیا مگر اس کی مزدوری ادا نہ کی۔‘‘ [1] حدیثِ نبوی ہے:’مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ،وَ إِذَا أُتْبِعَ أَحَدُکُمْ عَلٰی مَلِيٍّ فَلْیَتْبَعْ‘ ’’غنی آدمی کا(قرض کی ادائیگی میں)ٹال مٹول سے کام لینا ظلم ہے اگر کسی کو دولت والے کے حوالے کیا جائے تو وہ مان لے۔‘‘ [2] یعنی اگر مقروض،قرض خواہ سے کہے:آج کل میرا ہاتھ ذرا تنگ ہے،اس لیے تم فلاں مالدار آدمی سے اپنی رقم وصول کرلو کیونکہ میں نے اس سے یہ رقم لینی ہے تو قرض خواہ کو یہ بات مان لینی چاہیے۔واللہ اعلم۔ 16: اس سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے،اس کے حق میں مفید چیز یں مہیا کرے۔ایذا رسانی سے رک جائے،خوش ہو کر ملے،اس کا احسان قبول کرے اور اس کی کوتاہی معاف کرے اور اسے ایسے کام کی تکلیف نہ دے جو وہ نہ کر سکے،نیز جاہل سے علم کا طلب گار نہ بنے اور عاجز سے خوش گفتاری کا تقاضا نہ کرے۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ﴾’’معافی کا طریقہ اپنا اور اچھائی کا حکم دے اور جاہلوں سے اعراض کر۔‘‘ [3] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اِتَّقِ اللّٰہَ حَیْْثُمَا کُنْتَ،وَ أَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُہَا،وَ خَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ)) ’’تو جہاں بھی ہے،اللہ تعالیٰ سے ڈر،برائی ہو جائے تو اس کے پیچھے نیکی بھی کر،وہ برائی کو مٹا دے گی اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ برتاؤ کر۔‘‘ [4] 17: اگر بڑا ہے تو اس کی عزت و توقیر کرے اگر چھوٹا ہے تو اس پر رحم کرے۔ فرمانِ نبوی ہے:’مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَ یَعْرِفْ حَقَّ کَبِیرِنَا فَلَیْسَ مِنَّا‘’’جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ [5] نیز فرمایا:’إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللّٰہِ إِکْرَامَ ذِي الشَّیْبَۃِ الْمُسْلِمِ‘ ’’یہ بات اللہ جل جلالہ کی تعظیم میں سے ہے کہ سفید بالوں والے مسلمان کی عزت کی جائے۔‘‘ [6]
[1] صحیح البخاري، الإجارۃ، باب إثم من منع أجر الأجیر، حدیث: 2270۔ [2] صحیح البخاري، الحوالات، باب الحوالۃ:، حدیث: 2287، وصحیح مسلم، المساقاۃ، باب تحریم مطل الغني:، حدیث: 1564۔ [3] الأعراف 199:7۔ [4] [حسن] جامع الترمذي، البر والصلۃ، باب ماجاء في معاشرۃ الناس، حدیث: 1987 وقال: حسن صحیح، والمستدرک للحاکم: 54/1 وصححہ علی شرط الشیخین و وافقہ الذہبي۔ [5] [حسن] سنن أبي داود، الأدب، باب في الرحمۃ، حدیث: 4943، اسے امام حاکم( 62/1)اور ذہبی نے امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ [6] [ضعیف] سنن أبي داود، الأدب، باب في تنزیل الناس منازلہم، حدیث : 4843، اس کی سند ابوکنانہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ شیخ البانی کے نزدیک حدیث حسن ہے۔