کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 168
کوڑا کرکٹ پھینک کر اسے ایذا نہ دو۔یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اور حسنِ سلوک کے ذیل میں آتی ہیں،جس کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے:﴿وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ﴾’’قرابت دار ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ کے ساتھ(احسان کرو۔)‘‘[1] اور نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُحْسِنْ إِلٰی جَارِہٖ)) ’’جو اللہ اورروزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے،وہ اپنے ہمسایہ کے ساتھ احسان کرے۔‘‘ [2] 3. ہمسایہ کے پاس اچھے تحفے بھیج کر اس کی عزت و تکریم کرے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((یَا نِسَائَ الْمُسْلِمَاتِ!لَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِّجَارَتِہَا وَ لَوْ فِرْسِنَ شَاۃٍ)) ’’اے مسلمان عورتو!تم اپنی ہمسائی(کودینے)کے لیے کوئی چیز معمولی نہ سمجھو،چاہے بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ [3] اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا:’یَا أَبَا ذَرٍّ!إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَۃً فَأَکْثِرْ مَائَ ہَا وَ تَعَاہَدْ جِیرَانَکَ‘ ’’اے ابوذر!جب شوربہ پکاؤ تو پانی زیادہ ڈال لو اور ہمسایوں کا خیال رکھو۔‘‘ [4] سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ میرے دو ہمسائے ہیں کس کو تحفہ میں چیز بھیجوں ؟ فرمایا: ’إِلٰی أَقْرَبِہِمَا مِنْکِ بَابًا‘ ’’جس کا دروازہ تیرے زیادہ قریب ہے۔‘‘ [5] 4. ہمسایہ کا احترام و اکرام اس طرح کرے کہ اپنی دیوار پر شہتیر رکھنے سے اسے نہ روکے،اور اس کے قریب والی جگہ کو فروخت کرنے یا کرایہ پر دینے میں اسے ترجیح دے یا پہلے اسے بتائے اور اس سے مشورہ طلب کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’لَا یَمْنَعْ أَحَدُکُمْ جَارَہٗ أَنْ یَّغْرِزَ خَشَبَۃً فِي جِدَارِہٖ‘ ’’تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کو اپنی دیوار پر شہتیر رکھنے سے نہ روکے۔‘‘ [6] نیز فرمایا:’مَنْ کَانَ لَہٗ جَارٌ فِي حَائِطٍ أَوْ شَرِیکٌ فَلا یَبِعْہُ حَتّٰی یَعْرِضَہٗ عَلَیْہِ‘ ’’جس کے باغ میں اس کا پڑوسی یا(کوئی اور)شریک ہو تو وہ اسے فروخت کرنے سے پہلے اس(پڑوسی یا شریک)پر پیش کرے۔‘‘[7]
[1] النسآء 36:4۔ [2] صحیح مسلم، الإیمان، باب الحث علی إکرام الجار:، حدیث: 48۔ [3] صحیح البخاري، الہبۃ وفضلھا:، باب فضل الہبۃ، حدیث: 2566۔ [4] صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب الوصیۃ بالجار والإحسان إلیہ، حدیث: 2625۔ [5] صحیح البخاري، الشفعۃ، باب: أي الجوار أقرب؟ حدیث: 2259۔ [6] صحیح البخاري، المظالم، باب لایمنع جار جارہ أن یغرز خشبۃً في جدارہ، حدیث: 2463، وصحیح مسلم، المساقاۃ، باب غرز الخشبۃ في جدار الجار، حدیث: 1609 واللفظ لہ۔ [7] [صحیح ] المستدرک للحاکم: 56/2، ومکارم الأخلاق للخرائطي، حدیث: 245، وجامع الترمذي، البیوع، باب ماجاء في أرض المشترک یرید بعضہم بیع نصیبہ، حدیث : 1312 وقال: ہٰذا حدیث إسنادہ لیس بمتصل، اس کی سند قوی ہے۔ کیونکہ صحیفہ سے روایت کرنا کوئی مؤثر جرح نہیں ہے۔ اسے امام ذہبی نے صحیح کہا ہے۔