کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 165
’’اور رشتے دار آپس میں کتاب اللہ کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ [1] فرمانِ عالی ہے:﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ﴾ ’’تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور اپنے رشتے ناتے توڑ ڈالو۔‘‘ [2] ارشادِ عالی ہے:﴿فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللّٰهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾’’پس قرابت دار،مسکین اور مسافر کواس کا حق دو۔یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘ [3] ارشادِ ربانی ہے:﴿إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ﴾’’بے شک اللہ انصاف کا،احسان کا اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ [4] حکم ربانی ہے:﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں،یتیموں،مسکینوں،قرابت دار ہمسائے،اجنبی ہمسائے،پہلو کے ساتھی،مسافر اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔‘‘ [5] اللہ نے فرمایا:﴿وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا﴾ ’’اور تقسیم(وراثت)کے وقت اگر(غیر وارث)قرابت دار،یتیم اور مساکین آ جائیں تو انھیں بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو اور انھیں اچھی بات کہو۔‘‘ [6] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:’أَنَا الرَّحْمٰنُ،وَ ہِيَ الرَّحِمُ شَقَقْتُ لَہَا اسْمًا مِنِ اسْمِي،مَنْ وَّصَلَہَا وَصَلْتُہُ،وَ مَنْ قَطَعَہَا بَتَتُّہٗ‘ ’’میں رحمن(بہت رحم کرنے والا)ہوں۔میں نے رحم(بمعنی رشتہ کے لفظ)کو اپنے نام سے مشتق کیا(نکالا)ہے۔جو اسے(رشتے داری کو)جوڑے گا،میں اسے(اپنی رحمت سے)جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا میں اسے توڑوں گا۔‘‘[7] ایک صحابی(رضی اللہ عنہ)نے عرض کی:اے اللہ کے رسول!میں کس کے ساتھ حسنِ سلوک کروں ؟ آپ نے فرمایا:
[1] الأنفال 75:8۔ [2] محمد 22:47۔ [3] الروم 38:30۔ [4] النحل 90:16۔ [5] النسآء 36:4۔ [6] النسآء 8:4۔ [7] [صحیح] سنن أبي داود، الزکاۃ، باب في صلۃ الرحم، حدیث: 1694،اسے امام ترمذی نے (حدیث:1907)صحیح کہا ہے۔ اس روایت کی بے شمار سندیں ہیں دیکھیے: مسند الحمیدي، حدیث: 65۔ بتحقیقي۔