کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 164
فرمانِ نبوی ہے:’خَیْرُ النِّسَائِ الَّتِي إِذَا نَظَرْتَ إِلَیْہَا سَرَّتْکَ،وَ إِذَا أَمَرْتَہَا أَطَاعَتْکَ،وَ إِذَا غِبْتَ عَنْہَا حَفِظَتْکَ فِي نَفْسِہَا وَ مَالِکَ‘ ’’بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تو اسے دیکھے تو تجھے خوش کرے،جب تو اسے حکم کرے تو تیری اطاعت کرے اور جب تو اس سے غائب ہو تو اپنے نفس اور تیرے مال کی حفاظت کرے۔‘‘ [1] نیز فرمایا:’لَا تَمْنَعُوا إِمَائَ اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ،وَ إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَکُمْ امْرَأَتُہُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَلَا یَمْنَعْہَا‘ ’’اللہ کی بندیوں کو مساجد سے نہ روکو اگر کسی کی عورت اس سے مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تووہ اسے منع نہ کرے۔‘‘ [2] مزید فرمایا:’اِئْذَنُوا لِلنِّسَائِ بِاللَّیْلِ إِلَی الْمَسَاجِدِ‘ ’’عورتوں کو رات کے وقت مساجد میں جانے کی اجازت دے دیا کرو۔‘‘ [3] قرابت داروں کے حقوق: قریبی رشتہ داروں کے ساتھ مسلمان کا وہی برتاؤ ہوتا ہے جو والدین،اولاد اور بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے،وہ خالہ کو ماں کی طرح سمجھتا ہے۔چچا کو باپ کی حیثیت دیتا ہے جس طرح والدین کے ساتھ نباہ کرتا ہے،ماموں اور چچا کے لیے اطاعت شعاری و فرماں برداری کے بھی وہی جذبات رکھتا ہے،غرضیکہ جس کے ساتھ بھی اس کی کسی درجہ کی قرابت داری ہے،چاہے وہ مومن ہے یا کافر،ان کے ساتھ تعلقات جوڑتا اور ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتا ہے۔اور اسے اولاد اور والدین کے حقوق و آداب کی طرح لازم اور ضروری گردانتا ہے۔بڑے کی عزت کرتا اور چھوٹے پر رحم کھاتا ہے،بیماروں کی بیمار پرسی کرتا ہے اور مصیبت زدہ کی ہمدردی و غم خواری۔کوئی حادثہ سے دوچار ہو جائے تو تعزیت و تسلی کے لیے جاتا ہے۔وہ اس سے قطع تعلق کرتے رہیں تو یہ تعلقات جوڑتا رہتا ہے،ان کے لیے نرم پہلو رکھتا ہے،چاہے اس پر ظلم و ستم اور سختی کریں اور یہ سب کچھ اس جذبہ کے تحت کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے۔ارشادِ حق تعالیٰ ہے:﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرو جس کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں کا خیال رکھو۔‘‘ [4] ارشادِ الٰہی ہے:﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰهِ﴾
[1] [صحیح ] مسند أبي داود الطیالسي: 86/4، حدیث: 2444، اس کی سند ابومعشر کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن سنن النسائي، النکاح، باب کراھیۃ تزویج الزناۃ، حدیث: 3233 میں ہے، جو حسن سند کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا: کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’الَّتِي تَسُرُّہٗ إِذَا نَظَرَ وَتُطِیعُہٗ إِذَا أَمَرَوَلَا تُخَا لِفُہٗ فِي نَفْسِھَا وَمَالِھَا بِمَا یَکْرَہُ‘ اسے امام حاکم، ذہبی اور عراقی نے صحیح کہا ہے۔ ابن عجلان کی تصریحِ سماع کے لیے دیکھیے: السنن الکبرٰی للنسائي: 310/5، حدیث: 8961۔ [2] صحیح مسلم، الصلاۃ، باب خروج النساء إلی المساجد:، حدیث: 442۔ [3] صحیح مسلم، الصلاۃ، باب خروج النساء إلی المساجد:، حدیث: 442۔اس سے معلوم ہوا کہ مساجد میں خواتین کے لیے پردہ و حفاظت کا معقول انتظام ضروری ہے۔ واللہ اعلم۔ (ع،ر) [4] النسآء 1:4۔