کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 149
’’اور اے مومنو!سب اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ [1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’إِنِّي أَتُوبُ إِلَی اللّٰہِ وَ أَسْتَغْفِرُہُ فِي الْیَوْمِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ‘ ’’میں اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور ایک دن میں سوسو بار اس سے بخشش طلب کرتا ہوں۔‘‘ [2] عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’حَاسِبُوا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا‘ ’’اس سے قبل کہ تم سے حساب لیا جائے،خود اپنا محاسبہ کر لو۔‘‘ [3] حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کے وقت اپنے پاؤں پر درہ مارتے اور فرماتے:تو نے آج کیا کام کیا ہے؟ باغ میں مصروفیت کی وجہ سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نماز سے غافل رہے تو انھوں نے سارا باغ خیرات کر دیا۔یہ محاسبٔہ نفس انھوں نے خود کو سزا دینے اور تادیب سکھانے کے طور پر کیا تھا۔ اس امت کے صالحین رحمۃ اللہ علیہم اپنی کمزوریوں کا اسی طرح جائزہ لیتے تھے اور تقویٰ کا التزام کرتے اور نفس کی خواہشات سے اجتناب کرتے تھے۔یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان پر عمل کا نتیجہ تھا:﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ﴿٤٠﴾فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ﴾ ’’اور جو اپنے رب کے آگے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے بچا لیا،پس اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘[4] 4 مجاہدہ: ہر مسلمان کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اس کا پہلا دشمن اس کا اپنانفس ہے جو اس کے پہلو میں چھپا ہوا ہے۔یہ طبعی طور پر شرپسند ہے،اچھائی سے راہِ فرار اختیار کرتا اور برائی کا حکم دیتا ہے۔ قرآنِ مجید نے حضرت یوسف علیہ السلام یا عزیز مصر کی بیوی کا یہ قول بیان کیا ہے:﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ﴾ ’’اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا،بے شک یہ تو برائی کا حکم دیتا رہتا ہے۔‘‘ [5] اسے آرام و راحت میں رہنا پسند ہے،بے مقصد کاموں میں راغب ہے اور شہوات و خواہشات کی رو میں بہتا رہتا ہے،چاہے اس میں اس کی شامت آجائے یا موت ہی واقع ہو جائے۔ ’’نفس امارہ‘‘ کی اس حقیقت سے آگاہی کے بعد ہی ایک انسان اپنے آپ کو اس کے خلاف جہاد کرنے پر تیار کر سکتا ہے اور اعلانِ جنگ کر کے مقابلہ میں اسلحہ نکالتا اور اس کی رعونتوں کا مقابلہ کرتا ہے اور جوں ہی نفس راحت طلب ہونے لگتا ہے،اسے مشقت پر آمادہ کر کے شہوات کی رغبت سے محروم کر دیتا ہے اور جب اللہ کی اطاعت اور نیکی میں
[1] النور 31:24۔ [2] صحیح مسلم، الذکروالدعاء، باب استحباب الاستغفار والا ستکثار منہ، حدیث: 2702، وسند أحمد: 411/5۔ [3] [ضعیف] جامع الترمذي، صفۃ القیامۃ، باب حدیث: الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت، حدیث: 2459 تعلیقًا۔ [4] النّٰزعٰت 41,40:79۔ [5] یوسف 53:12۔