کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 147
ارشادِ ربانی ہے:﴿وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ﴾ ’’اور جو اپنا چہرہ اللہ کے مطیع کر دے اور وہ اخلاص والا بھی ہو،پس اس نے مضبوط کڑا پکڑ لیا۔‘‘ [1] اور درج ذیل آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کی دعوت دی ہے:﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ﴾ ’’اور جان لو کہ بے شک اللہ تمھارے دلوں کی باتیں(بھی)جانتا ہے،پس اس سے ڈرو۔‘‘ [2] نیز فرمایا:﴿إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا﴾’’بے شک اللہ تم پر نگران ہے۔‘‘ [3] مزید فرمایا:﴿وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ﴾ ’’اور تم جس حال میں ہوتے ہو اور قرآن پڑھتے ہو اور جو بھی عمل کرتے ہو،ہم تمھارے سامنے ہوتے ہیں،جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو۔‘‘ [4] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرمایا:’أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ،فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ‘ ’’تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو(تصور میں)اسے دیکھ نہیں سکتا تو(اتنا تصور ضرور ہوکہ)وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ [5] سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم کا یہی طریقِ کار رہا،اسی طرح انھیں یقینِ کامل نصیب ہوا اور وہ مقربین کے درجہ پر فائز ہوئے۔چند اقوالِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے: ٭ جنید رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ نظر نیچی رکھنے میں کون سی چیز معاون بن سکتی ہے؟ فرمایا:تمھارا یہ جان لینا کہ تجھے دیکھنے والے کی نظر زیادہ تیز ہے تیری اس نگاہ سے جو کسی کی طرف اٹھ رہی ہے۔[6] ٭ سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:اس(اللہ تعالیٰ)کی طرف نظر رکھ کہ جس سے کوئی چیز مخفی نہیں،اس سے امید قائم کر جو وفا اور عطا کا مالک ہے اور اس سے ڈر جو سزا دینے پر قادر ہے۔[7] ٭ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے ایک شخص سے کہا:اے شخص!اللہ کے مراقبہ میں رہ۔اس نے پوچھا:کس طرح؟ فرمایا:ہمیشہ اس طرح رہ کہ گویا تو اللہ عزوجل کو دیکھ رہا ہے۔[8]
[1] لقمٰن 22:31۔ [2] البقرۃ 235:2۔ [3] النسآء 1:4۔ [4] یونس 61:10۔ [5] صحیح البخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن الإیمان:، حدیث: 50، وصحیح مسلم، الإیمان، باب بیان الإیمان والإسلام:، حدیث: 8۔ [6] إحیاء علوم الدین: 471/4۔ [7] إحیاء علوم الدین: 472/4۔ [8] إحیاء علوم الدین: 470/4۔