کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 136
قرآنِ کریم اللہ کا کلام ہے جس کے اردگرد باطل نہیں پھٹک سکتا۔جو اس کے مطابق بات کرے وہ صادق ہے اور جو اس کے موافق فیصلہ کرے وہ عادل ہے۔قرآن کو ماننے والے اللہ کے مقرب ہیں،اس پر عمل کرنے والے کامیاب و کامران ہیں اور اس سے اعراض کرنے والے تباہ و برباد ہیں۔ ایک مسلمان کے دل میں کتاب اللہ کی عظمت و تقدیس اس سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فضل و شرف اور اس کی قدوسیت کا بایں الفاظ اظہار فرمایا ہے:’اِقْرَأُوا الْقُرْآنَ،فَإِنَّہُ یَأْتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیعًا لِّأَصْحَابِہِ‘ ’’قرآن پڑھو،یہ قیامت کے دن اس پرعمل کرنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔‘‘ [1] نیز فرمایا:’خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہُ‘ ’’تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘ [2] نیز فرمایا: ’أَہْلُ الْقُرآنِ أَہْلُ اللّٰہِ وَ خَاصَّتُہُ‘ ’’قرآن والے اللہ تعالیٰ کے اپنے اور اس کے منتخب لوگ ہیں۔‘‘ [3] فرمان نبوی ہے:’إِنَّ ہٰذِہِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیدُ إِذَا أَصَابَہُ الْمَائَ،فَقِیلَ:یَا رَسُولَ اللّٰہِ!وَ مَا جَلَائُ ہَا؟ فَقَالَ:تِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ وَ ذِکْرُ الْمَوْتِ‘ ’’بے شک یہ دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے جب اسے پانی لگتا ہے۔‘‘ عرض کی گئی:اے اللہ کے رسول!ان کی پالش کیا ہے؟ فرمایا ’’تلاوتِ قرآن اور موت کو یاد کرنا۔‘‘ [4] ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ضدی قسم کا مخالف(ولید بن مغیرہ)آ کر کہنے لگا:اے محمد!مجھے قرآن پڑھ کر سنائیے تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی: ﴿إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ﴾ ’’بے شک اللہ عدل کرنے اور نیکی کرنے اور قرابت داروں کو(صدقہ یا ہدیہ)دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی،برائی اور ظلم و زیادتی کرنے سے منع کرتا ہے۔‘‘ [5] ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیتِ کریمہ کی تلاوت سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ وہ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کا دشمن،دوبارہ پڑھنے کا کہنے لگا،وہ الفاظ کی جلالت اور معانی کی عظمت و طہارت میں مدہوش ہو گیا اور ان کی قوتِ تاثیر نے اسے
[1] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراء ۃ القرآن و سورۃ البقرۃ، حدیث: 804۔ [2] صحیح البخاري، فضائل القرآن، باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ، حدیث: 5027۔ [3] [صحیح] سنن ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فضل من تعلم القرآن و علمہ، حدیث: 215، والمستدرک للحاکم: 556/1 اسے منذری اور بوصیری نے صحیح کہا ہے۔ [4] [ضعیف جدًّا] شعب الإیمان للبیھقي: 353/2، حدیث: 2014۔اس کی سند میں عبداللہ بن عبدالعزیز ابی رواد سخت ضعیف ہے۔ (أضواء المصابیح في تحقیق مشکاۃ المصابیح: 2168)۔ [5] النحل 90:16