کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 124
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو کسی بھی مخلوق کے قول کی بنیاد پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ارشاد باری ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ﴾’’اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔‘‘[1] ارشادِ الٰہی ہے:﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾’’اور جو کچھ تمھیں رسول دے،اسے لے لو اور جس سے منع کرے،اس سے رک جاؤ۔‘‘[2] ارشادِ عالی ہے:﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ﴾ ’’اور جب اللہ اور اس کا رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں،تو کسی مومن مرد اور عورت کے لیے(اس معاملے میں کوئی)اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘[3] جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَّیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ‘ ’’جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے،تو وہ مردود ہے۔‘‘[4] ارشادِ نبوی ہے:’لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُونَ ہَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہِ‘ ’’کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائے۔‘‘[5] ٭ چونکہ یہ امام بھی انسان تھے،لہٰذا ان کی بات درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی،غفلت،بھول چوک یا اس بنیاد پر کہ دین کا سارا علم کسی ایک امتی کے سینے میں کبھی جمع نہیں ہوا،مزیدبرآں ان ائمہ سے بلا ارادہ کسی مسئلے کے بیان میں غلطی بھی ہو سکتی ہے،لہٰذا کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں کہ ان میں سے کسی ایک کی رائے پر جمود اختیار کرے بلکہ ان میں سے جس کی بات صائب اوردرست ہو،اسے قبول کر لیا جائے۔ان کے اقوال اسی صورت میں رد کیے جا سکتے ہیں جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ثابت ہو جائیں۔ ٭ فروعی دینی مسائل میں ان کے اختلاف کو ہر مسلمان قابلِ عذر سمجھتا ہے کہ انھوں نے یہ اختلاف جہالت،ضد اور تعصب کی بنا پر نہیں کیا بلکہ یا تو کسی ایک کو حدیث نہیں ملی،یا اس نے حدیث کو منسوخ سمجھا یا اسے سمجھ نہیں سکا کیونکہ لفظ کے مطالب و معانی سمجھنے میں فہم کا اختلاف ہو سکتا ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
[1] الحجرات 1:49۔ [2] الحشر 7:59۔ [3] الأحزاب 36:33۔ [4] صحیح البخاري، الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود، حدیث: 2697، وصحیح مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ:، حدیث: 1718 واللفظ لہ۔ [5] [ضعیف] النووي في الأربعین، حدیث: 41، وذم الکلام للہروي، ص: 96، وشرح السنۃ: 213/1، اس کی سندہشام بن حسان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔