کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 122
حسن رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا:’اِبْنِي ہٰذَا سَیِّدٌ،وَلَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ‘ ’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے۔امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[1] سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اعلان ہوا:’إِنَّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ أَمِینًا،وَ إِنَّ أَمِینَنَا أَیَّتُہَا الْأُمَّۃُ!أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ‘ ’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اے امت کے لوگو!ہمارے امین ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘[2] ٭ ایک سچا مسلمان ان کی برائیوں کے تذکرے سے احتراز کرتا اور ان کے باہمی منازعات و مشاجرات(جنگوں)کے بارے میں گفتگو کرنے سے گریز کرتا اور خاموشی اختیار کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔[3] اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:’لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي‘ ’’میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔‘‘[4] نیز فرمایا:’لَا تَتَّخِذُوہُمْ غَرَضًا بَعْدِي‘ ’’ میرے بعدانھیں(عیب و برائی کا)نشانہ مت بنانا۔‘‘[5] نیز ارشاد ہوا:’مَنْ آذَاہُمْ فَقَدْ آذَانِي،وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَی اللّٰہَ،وَ مَنْ آذَی اللّٰہَ یُوشِکُ أَنْ یَّأْخُذَہُ‘ ’’جس نے ان(صحابہ رضی اللہ عنہم)کو ایذا دی،اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی،اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی قریب ہے کہ وہ اسے پکڑ لے۔‘‘[6] ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی عزت و احترام ایک مومن کے ایمان کا حصہ ہے۔علاوہ ازیں ان کی بابت یہ عقیدہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ پاک اور ہر طرح کے الزامات سے مبرا ہیں۔اور یہ کہ ان میں افضل خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم ہیں۔نیز قرآنِ پاک میں ارشادِ عالی ہے:﴿النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾ ’’ایمان والوں پر نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کا استحقاق ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ ہے اور آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی بیویاں
[1] صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ، حدیث: 3746۔ [2] صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، باب مناقب أبي عبیدۃ بن الجراح رضی اللہ عنہ ، حدیث: 3744 [3] صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم معصوم نہیں تھے، ان سے بشری لغزشیں اور بعض اوقات گناہ بھی سرزد ہوجاتے تھے لیکن صدقِ ایمان، بے مثال قربانیوں اور نیکیوں کی بے پناہ کثرت کے سامنے ان کوتاہیوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، پھر اللہ کی طرف رجوع کرنے میں وہ سب سے زیادہ پیش پیش رہتے تھے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اور جنت کی پیشگی بشارت کا بار بار تذکرہ فرمایا ہے، لہٰذا ان کے ذکرِ بد سے ہمیشہ احتراز ہی کیا جائے گا اور ان کی باہمی جنگوں کا تذکرہ بھی اس انداز سے نہیں کیا جائے گا کہ اس سے کسی صحابی کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ [4] صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، باب، حدیث: 3673۔ [5] [ضعیف] جامع الترمذي، المناقب، باب في من سب أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث: 3862، اس کی سند عبیدہ بن ابی رائطہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ [6] [ضعیف] جامع الترمذي، المناقب، باب في من سب أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث: 3862۔