کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 101
حکم کی تعمیل کرتے اوراسی کا پرچار کرتے ہیں۔اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے خود بھی اجتناب کرتے اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں۔اللہ کی پسند ان کی پسند ہے اور اللہ کا بغض ان کا بغض ہے۔جب وہ اللہ سے مانگتے ہیں تو وہ انھیں دیتا ہے،جب مدد طلب کرتے ہیں تو وہ مدد کرتا ہے،جب وہ اس کی پناہ کے طلب گار ہوتے ہیں تو وہ انھیں پناہ دیتا ہے۔وہی ایمان و تقویٰ کے حامل ہیں،دنیاوی و اخروی کرامت وبشارت انھی کے لیے ہے۔ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہے،البتہ ایمان و تقویٰ کی بنیاد پر ان کے درجات مختلف ہیں۔جسے ایمان و تقویٰ میں وافر حصہ ملا،اللہ کے ہاں وہ بلند مرتبہ ہے اور اس کی کرامت و عزت بہت زیادہ ہے۔سب سے بڑے اولیاء،اللہ کے رسول اور نبی ہیں اوران کے بعد ایمان والے۔اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں جو کرامات ظاہر کی ہیں،مثلاً:تھوڑے کھانے کو زیادہ کر دینا،تکالیف اور بیماریوں کو دور کرنا،سمندروں میں سے گزر جانا یا جلتی آگ میں بھی نہ جلنا وغیرہ،یہ سب معجزات کے ہی قبیل سے ہیں،تاہم معجزہ اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ معجزہ میں ایک قسم کا چیلنج ہوتا ہے جو کرامت میں نہیں ہوتا۔[1]
[1] چیلنج سے مراد یہ ہے کہ رسول اپنے مخاطبین سے فرماتا ہے کہ اگر میں اللہ کے حکم سے یہ کام کر دوں تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟ میری نبوت و رسالت کا اقرار کرتے ہوئے مجھ پر ایمان لاؤ گے؟ اگر پھر بھی تم نے مجھے اور میری دعوت کو تسلیم نہ کیا تو اللہ تمھیں اس کی سزا دے گا جبکہ کرامت میں یہ انداز نہیں ہوتا کہ اگر میں فلاں کرامت دکھا دوں تو کیا تم مجھے ولی مان لو گے؟ معجزہ یا کرامت کی حقیقت سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں : 1. انسان کا وجود، اس کی عقل، طاقت، جملہ عادات، خصائل اور خوبیاں سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہوتی ہیں ۔ 2. انسانی عادت اور فطرت ہے کہ جس کام میں بھی کسی آدمی کی عقل اور طاقت صرف ہوتی ہے، وہ کام کتنا ہی انوکھا کیوں نہ ہو دوسرے آدمی بھی محنت اور مشق کرکے وہ کام کرہی لیتے ہیں ۔ 3. لیکن جب کسی آدمی سے ایسا کام صادر ہو جو عام قانونِ قدرت سے ہٹا ہوا ہو، اس میں کسی علم یا فن کا دخل نہ ہو اور اسباب و وسائل کو بھی استعمال میں نہ لایا گیا ہو، نیز ہر عام و خاص اس کے مقابلے سے یا تو سرے سے ہی عاجز ہو یا اسباب و وسائل کے بغیر عاجز ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی سے یہ کارنامہ سرزد ہوا ہے، اس میں محض اس کی عقل اور طاقت کام نہیں کررہی بلکہ اسے کسی غیبی طاقت کی ان دیکھی مدد حاصل ہے۔ 4. اگر ایسا کام کسی نبی اور رسول سے صادر ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں ، اور اگر کسی صحیح العقیدہ، عالم دین اور متبع سنت (ولی اللہ)سے صادر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں ۔ 5. لوگوں سے انبیاء و رسل کی صداقت منوانے کے لیے اللہ تعالیٰ انھیں عموماً دو چیزوں سے نوازتا رہا ہے: (ا)دلیل و برہان کی طاقت (ب)مختلف معجزات کا ظہور۔ 6. جس نبی کو بھی معجزہ ملا، اس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اسباب و وسائل کو استعمال میں لائے بغیر ہر قسم کا کارنامہ کر دکھانا میری طاقت میں ہے یا میرے کارِ منصبی میں داخل ہے، نہ اس کے صحابہ نے یہ عقیدہ رکھا کہ وہ ان معجزات کی بنیاد پر اسبابِ عادیہ کے بغیر دوسرے انسانوں کا حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ (