کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 93
مطابق اٹھایا جائے گا۔
جیسے صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کعبہ پر ایک لشکر حملہ کرے گا جب وہ بیداء کھلے میدان میں پہنچیں گے، تو اول سے اخیر تک سب اس میدان میں دھنسا دئیے جائیں گے....آپ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ! ان میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو زبردستی لائے گئے ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا :
’’ انہیں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔‘‘[1]
یہ حکم ظاہر کے اعتباسے ہے؛ جب کوئی قتل ہوجائے یا اس پر وہ حکم لگایا جائے جو حکم کفار پر لگایا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی نیت پر اٹھائیں گے۔ جیسے ہم میں موجود منافقین کا حال ہے؛ ان پران کے ظاہر کے اعتبار سے اسلام کا حکم لگایا جاتا ہے؛ مگر انہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا؛اور قیامت کے دن انہیں اس حساب سے بدلہ ملے گا جو ان کے دل میں ہوگا؛ نہ کہ محض ظاہر کے اعتبار سے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس سے مروی ہے: انہوں نے کہا: یارسول اللہ ! میں مجبور تھا[مجھے زبردستی لایا گیا تھا ] تو آپ نے فرمایا: ’’ ظاہر میں تم ہمارے خلاف تھے۔ جب کہ تمہارے باطن کا معاملہ اللہ پر ہے ۔‘‘[2]
خلاصہ کلام! مسلمانوں کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو کوئی دار کفر میں ہو؛ اوروہ ایمان لے آئے؛ مگر ہجرت کرنے سے عاجز آجائے؛ تو اس پر وہ امور شریعت واجب نہیں ہوتے جن پر عمل کرنے سے وہ عاجز آگیا ہو۔بلکہ ان کا وجوب امکان کے اعتبارسے ہوتا ہے۔یہی حال اس کا بھی ہے جسے کسی چیز کے حکم کا پتہ ہی نہ ہو۔ پس اگر کسی کو معلوم نہ ہو کہ نماز اس پر واجب ہے؛ اور ایک مدت تک وہ ایسے ہی رہے؛ تو علماء کے ظاہر قول کے مطابق اس پر قضاء واجب نہیں ہوتی۔یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور اہل ظاہر کا مذہب ہے؛ اوراحمد رحمہ اللہ کے ہاں بھی ایک توجیہ یہی ہے۔ اوریہی حکم دیگر تمام واجبات کا بھی ہے؛ جیسے رمضان کے روزے؛زکواۃ اداکرنا؛اور دیگر امور۔ اور اگر اسے شراب کی حرمت کا علم نہ ہو؛ اوروہ پی لے ؛ تو وہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اس صورت میں اس پر حد نہیں لگے گی۔ ہاں نماز کی قضاء کے
[1] جاء [ہذا الحدِیث مختصرا عن عائِشۃ رضِی اللّٰہ عنہا فِی: البخارِیِ:۲؍۱۴۹کتاب الحجِ باب ہدمِ الکعبۃِ، وجاء مطولا عنہا فِی: البخارِیِ:۳؍۶۵؛ کتاب البیوعِ، باب ما ذکِر ما فِی الأسواقِ، ونصہ: یغزو جیش الکعبۃ؛ فِذا انوا بِبیدا مِن الرضِ یخسف بأِولِہِم وآخِرِہِم۔قالت: قلت: یا رسول اللّٰہِ، کیف یخسف بأِولِہِم وآخِرِہِم، وفِیہِم سواقہم ومن لیس مِنہم؟ قال:’’ یخسف بِأولِہِم وآخِرِہِم، ثم یبعثون علی نِیاتِہِم۔ وروی النسائِی الحدِیث فِی سننِہِ:۵؍۱۶۲؛ کتاب المناسِکِ، باب حرمِ الحرمِ ، وخصص ابن ماجہ باباً فِی سننِہِ لِہذِہِ الحادِیثِ:۲؍۱۳۵۰؛ کتاب الفِتنِ، باب جیشِ البیدائِ، وفِی الحدِیثِ الأخِیرِ قالت أم سلمی: لعل فِیہِم المکرہ؟ قال: إِنہم یبعثون علی نِیاتِہِم۔ والحدِیث فِی المسندِ ؛ ط۔ الحلبِیِ:۶؍۳۱۸۔
[2] أورد أحمد فِی مسندِہِ ط۔ المعارِفِ:۵؍۱۰۵؛ حدِیثا عنِ ابنِ عباس رضِی اللّٰہ عنہما جاء فِیہِمع اختلاف الألفاظ ،....الحدِیث، قال أحمد شاِکر رحِمہ اللہ: إِسنادہ ضعِیف۔