کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 570
میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی رہ جائے؛ سوائے اس دینار کے جس قرض ادا کرنے کے لیے روک رکھا ہو۔‘‘[1]
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ زیادہ مال دار لوگ بروز قیامت کم درجہ والے ہوں گے سوا ان لوگوں کے جو مال کو ادھر اُدھر بکھیردیں ۔‘‘[2]
جب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور بہت سامال پیچھے چھوڑا تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اسے اس کنز (خزانہ) پر محمول کیا جس پر سزا دی جائے گی ۔ اس ضمن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے تبادلۂ افکار کر رہے تھے۔ اتنے میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اورانھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تائید کی تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے ان کو پیٹا۔ انہی نظریات کی بنا پر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین ملک شام میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔
عباد اور زاہدین کی ایک جماعت نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔جیسا کہ عبد الواحد بن زید کے متعلق کہا جاتا ہے ۔اور بعض لوگ شبلی کو بھی انہی لوگوں میں سے شمار کرتے ہیں جن کا یہ مسلک ہے۔ مگر پوری امت خلفاء راشدین ؛ جمہورصحابہ اور تابعین [اور علماء کی رائے ]اس کے خلاف ہے ۔
صحیح بخاری میں یہ حدیث ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ پانچ اوسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ؛اور نہ ہی پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ ہے اور نہ ہی پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوٰۃ ہے۔‘‘[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق سے کم غلے پر زکوٰۃ کی نفی کی ہے۔ اور اس میں یہ شرط نہیں لگائی کہ وہ اس مال کا
[1] مستدرک حاکم ۳۰؍۳۴۴)
[2] صحیح بخاری، کتاب الرقاق۔ باب المکثرون ھم المقلون(ح:۶۴۴۴)، صحیح مسلم۔ کتاب الزکاۃ، باب الترغیب فی الصدقۃ (ح:۳۲؍۹۴) ۔ ہذانِ جزئانِ مِن حدِیث واحِد عن أبِی ذر الغِفارِیِ رضِی اللّٰہ عنہ مع اختِلاف فِی الألفاظِ فِی البخاری 3؍116؛ِ کتابِ الِاستِقراضِ، بابِ أداِ الدیونِ، 8؍94 ،ِکتابِ الرِقاقِ، بابِ قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم : ما أحِب أن لِی مِثل أحد ذہبا 8؍60 ؛ِ کتابِ الِاستِئذانِ، بابِ من أجاب بِلبیک وسعدیک، مسلِم 2؍687 ؛ ِکتاب الزکاۃ، بابِ الترغِیبِ فِی الصدقِۃ۔
حضرت عبداﷲ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی ام ذر رضی اللہ عنہا نے کہا:’’ اﷲ کی قسم! حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو ربذہ کی طرف نہیں نکالا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ جب مدینہ کی آبادی سلع تک پہنچ جائے تو وہاں سے نکل جانا۔‘‘ بخاری ( ح:۶۴۴۴)حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اللہ کی پناہ اﷲ کی قسم! کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے نکالا ہو۔‘‘
[3] صحیح بخاری:ج ۱ : ح : ۱۴۰۶؛ ِکتاب الزکاۃ، بابِ ما أُدِّیَ زکاتہ لیس بِکنز، مسلِم2؍673 ؛ِ کتاب الزکاۃ، أولِ الکِتاب ، سننِ بِی داود2؍127 ؛ ِکتاب الزکاۃ، بابِ ما تجِب فِیہِ الزکاۃ؛ المسندِ ط۔الحلبِی 3؍6، والحدِیث فِی سنن الترمذی، والنسائِیِ، وابنِ ماجہ، والدارِمِیِ۔