کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 57
برا حکمران دے دے اور ا ن برے ساتھیوں کے بدلے میں انہیں انتہائی اچھے ساتھی عطاء فرمادے۔ اور اگر ان شیعہ کا کوئی اور گناہ نہ بھی ہوتا تو صرف جنگوں میں جو ان لوگوں نے حضرت کو ذلیل کیا ‘ اور آپ کے احکام کی نافرمانی کی[یہی رسوائی ان لوگوں کے لیے کافی تھی]۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے زمانے کے بہترین شیعہ تھے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ واضح فرماتے ہیں کہ:’’ ان لوگوں کے گناہ انہیں نقصان پہنچارہے ہیں ‘‘ ؛ تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو شر و فساد میں اس دور کے شیعہ سے دو ہاتھ آگے ہیں ۔
خلاصہ کلام ! ایسی بات کہنا کفر ہے ۔ یہ کہنے والے سے توبہ کروانی چاہیے۔ اور اللہ اوراس کے رسول پر او رآخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسی بے ڈھنگ بات کہے ۔
ایسے ہی رافضی مصنف کا قول : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا وہ برائی ہے جس کے ساتھ کوئی نیکی کام نہیں آتی۔‘‘
جواب : اگر آپ سے بغض رکھنے والا کافر ہے تو پھر یقیناً وہ اپنے کفر کی وجہ سے انتہائی بدبخت ہے ۔ اور اگر مؤمن ہے تو اسے اس کے ایمان سے فائدہ ضرور پہنچے گا بھلے وہ آپ سے بغض رکھنے کی غلطی کررہا ہو۔ [1]
[محبت اہل بیت اورسال کی عبادت ....] :
رافضی مصنف کی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ذکر کردہ روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :’’ آل محمد سے ایک دن محبت کرنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔اور جس کا انتقال اس محبت پر ہوگیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
یہ روایت بھی موضوع ہے۔
اسی طرح یہ روایت :’’ میں اور علی رضی اللہ عنہ اﷲکی مخلوق پر حجت ہیں ۔‘‘ کھلا ہوا کذب ہے۔
اہل علم پر ان دونوں روایات کا جھوٹ ہونا صاف واضح ہے ۔ایک سال کی عبادت میں ایمان ؛روزانہ کی پانچ نمازیں ‘ماہ رمضان کے روزے ہیں ۔ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ماہ کی محبت ان اعمال کے قائم مقام نہیں ہوسکتی تھی ؛تو پھر ایک دن کی محبت کیسے اس کے بدلے میں کافی ہوسکتی ہے؟
ایسے ہی بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت صرف اس کے رسولوں کے ذریعہ قائم ہوتی ہے ۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
[1] ’’ علی رضی اﷲ عنہ کی محبت ایسی نیکی ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی برائی نقصان دہ نہیں ہے۔اور بغض علی ایسی برائی ہے جس کی موجود گی میں کوئی نیکی بھی فائدہ مند نہیں ہے۔‘‘ [الفضائل؍ شاذان بن جبرائیل القمی: ۹۶( فی فضائل الامام علی علیہ السلام ]
نیز آپ کی طرف یہ بھی منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ( حالانکہ آپ اس الزام سے بری ہیں ):’’۔ اگر تمام مخلوق علی بن أبی طالب کی محبت پر جمع ہوجاتی تو اﷲ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ فرماتے۔‘‘ [الفضائل؍ شاذان بن جبرائیل( خبر المقدسی )]
اور ایک بہتان یہ بھی آپ کی طرف منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ کوئی بھی غلام یا باندی ایسے نہیں مرتے جن کے دل میں مثقال کے ایک ذرہ کے برابر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ہوگی ؛ مگر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کریں گے ۔‘‘
الآمالي للطوسي ص ۳۳۰؛ ح: ۱۰۷۔ بشارۃ المصطفی ص ۳۶۱؛ ح: ۴۶۔ کشف الغمۃ ۲؍۲۳۔ فصل في ذکر مناقب شتی و أحادیث متفرقۃ۔