کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 566
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ سے راضی تھے؛[یہ باتیں ] سب کو معلوم ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر بھی کچھ امور ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آپ بہت بڑے متقین اولیاء اللہ میں سے تھے۔آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگئے تھے اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا تھا۔ ان امور کو کسی ایسی روایت کی وجہ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کی سند ہی ثابت نہ ہو۔اور نہ ہی یہ پتہ ہو کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔اور پھر ایسے امور کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا گناہ قرار دیا جائے جن کی حقیقت کا کوئی پتہ ہی نہ ہو۔ بلکہ اس کی مثال توان لوگوں کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب سے محکم آیات کے مقابلہ میں متشابہ آیات پیش کرتے ہیں ۔حقیقت میں یہ ان لوگوں کا فعل ہے جن کے دلوں میں کجی ہے اور جو فتنہ تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں ؛[اس کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا]۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کج رو روافض ان شرار الخلق لوگوں میں سے ہیں جو ہمیشہ فتنہ مچانے کی سوچتے رہتے ہیں اور ان کی مذمت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ خلاصہ کلام ! ہم یہ بات قطعی طور پر جانتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی انسان کو ہمیشہ کے لیے جلاوطن نہیں کیا تھا ؛ کہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہوئے اسے واپس بلالیتے ؛ اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس پر اعتراض نہ کرتا اور سب خاموش رہتے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ آپ اس بات سے بری ہیں کہ کوئی بھی ایسا کام کریں ۔بلکہ یہ کام اجتہادی امور میں سے ہے ۔[حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم بن العاص کو نافرمانی اور اسلام کی تذلیل کے لیے مدینہ نہیں بلایا تھا، بلکہ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خیال میں حکم کی حالت سدھر گئی تھی ۔ یہ معلوم نہیں کہ آپ کا یہ اجتہاد صحیح تھا یا غلط] [1]
[1] قاضی ابن العربی العواصم من القواصم ،ص:۷۷ پر لکھتے ہیں :’’ہمارے علماء کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکَم کو مدینہ واپس آنے کی اجازت دے دی تھی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماسے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا:’’ اگر آپ اس بات کا کوئی گواہ پیش کریں تو ہم حکم کو واپس بلالیں گے۔‘‘ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اپنے علم کے مطابق انھوں نے حکم کو واپس بلا لیا۔ مشہور محدث امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الامامت والمفاضلہ‘‘ میں جوان کی کتاب الفَصَل کی جلد چہارم میں شامل ہے ،صفحہ:۱۵۴، پر علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حکم کو جلا وطن کرنا ایک واجب حد شرعی کی حیثیت نہیں رکھتا اور ہمیشہ کے لیے بھی نہ تھا۔ بخلاف ازیں آپ نے حکم کو کسی جرم کی سزا دی تھی جس کی بنا پر وہ خارج از بلد ہونے کا مستحق قرار پایا۔ دین اسلام میں توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے، بصورت توبہ اس کی یہ سزا باتفاق اہل اسلام ساقط ہو جائے گی اور وہ جہاں چاہے جا سکتا ہے۔‘‘ فرقہ زیدیہ کے عظیم مجتہد سید محمد بن ابراہیم الوزیر یمنی المتوفی ۸۴۰ھ نے اپنی کتاب الروض الباسم(۱؍۱۴۱۔۱۴۲) پر مشہور شیعہ معتزلی محسن بن کرامہ کی کتاب’’ سرح العیون‘‘ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی تھی کہ حکم کو مدینہ بلالیں ۔ ابن الوزیر کہتے ہیں ۔ معتزلہ اور شیعہ زیدیہ کو چاہیے کہ اس حدیث کو قبول کرکے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کومورد طعن بنانا ترک کردیں ، کیونکہ اس حدیث کا راوی شیعہ کے نزدیک قابل اعتماد ہے اور صحت عقیدہ و علم و فضل کے لحاظ سے بھی ممتاز ہے۔ پھر ابن الوزیر نے اس پرکھل کر کلام کیا ہے اور امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ سے دفاع کرنے میں دلائل و براہین کا انبار لگا دیا ہے جو تین صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ امر قابل ذکرہے کہ اس حدیث کا راوی ایک شیعہ عالم ہے، ابن الوزیر جنھوں نے سیدنا عثمان کی مدافعت میں دلائل دیے ہیں وہ بھی زیدی شیعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ و اہل سنت علماء سب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بریت پر متفق ہیں ۔