کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 554
سی اغراض کو کوئی دخل نہیں جن پر کوئی بھی اہل علم موافقت نہ کرتا ہو۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اگر یہ تأویلات شریعت کے مطابق راجح ہیں تو پھر ان میں کسی کوکوئی کلام نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ تاویلات مرجوح ہیں ؛ توحضرت علی رضی اللہ عنہ سے جوکچھ ہوا ؛ اور مسلمانوں کے مابین جتنی خونریزی ہوئی وہ اس سے زیادہ تاویل یا عذر کی مستحق نہیں ہوسکتی۔ان اقوال سے حجت اخذ کرنا ان لوگوں کی حجتوں سے زیادہ مضبوط ہے جن کی رائے کی وجہ سے جنگوں کی آگ بھڑکی۔
[حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ او رجناب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ]:
[اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ :’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مورد طعن بناتے اور ان کی تکفیر کیا کرتے تھے۔‘‘
[جواب]:یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک جھوٹا الزام ہے۔علماء کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تکفیر نہیں کیا کرتے تھے۔ بلکہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا توآپ کوفہ تشریف لے گئے اور وہاں پر فرمایا: ’’ہم نے اپنے میں سے سب سے اعلی اور اونچامقام رکھنے والے کو والی مقرر کیا ہے ؛ اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلافت کے پہلے چند سال نظام بالکل درست چلتا رہا ۔جب آخری چند سال آئے تو آپ پر اعتراضات کیے جانے لگے۔بعض امور ایسے تھے جن میں لوگ معذور تھے ۔ اور بہت سارے امور ایسے تھے جن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ معذور تھے۔ ان جملہ امور میں سے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معاملہ بھی ہے۔ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اس لیے ناراض ہو گئے تھے کہ آپ نے قرآن کریم کی کتابت ان کی بجائے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو سپرد کی تھی [1] اور باقی صحابہ کو حکم دے دیا تھا کہ اپنے پاس موجود مصاحف کودھو کر ختم کردیں ۔
[1] ابو عبد اﷲ زنجانی ایک شیعہ معاصر نے اپنی کتاب تاریخ القرآن کے صفحہ ۴۶ پر لکھا ہے کہ علی بن موسیٰ المعروف ابن طاؤس المتوفی (۵۸۹۔ ۶۶۴) ایک شیعہ عالم نے اپنی کتاب ’’سعد السعود‘‘ میں علامہ شہرستانی کی تفسیر کے مقدمہ سے بروایت سوید بن علقمہ رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنا فرماتے تھے:’’ ارے لوگو! اﷲسے ڈرو اور عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں مبالغہ آمیزی سے کام نہ لو اور یہ نہ کہو کہ انھوں نے قرآن کے اوراق جلا دیے تھے۔ اﷲکی قسم یہ اوراق انھوں نے صحابہ کی ایک جماعت کے روبرو جلا ئے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ہمیں جمع کیا اور کہا:’’ ان مختلف قراء توں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ۔ ایک شخص دوسرے سے مل کر کہتا ہے کہ میری قراء ت تم سے بہتر ہے اس کا نتیجہ کفر کی صورت میں برآمد ہوگا۔‘‘ ہم نے کہا آپ کی کیا رائے ہے؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ میں لوگوں کو ایک قرآن پر جمع کرنا چاہتا ہوں ۔ اگر قراء ت قرآن میں ابھی تمہارے یہاں اختلاف پیدا ہو گیا۔ تو بعد میں آنے والے مسلمان شدید اختلافات میں مبتلا ہو جائیں گے۔‘‘ ہم نے کہا:’’ آپ ٹھیک فرماتے ہیں ۔‘‘ خطیب نے العواصم من القواصم،ص:۶۳۔۶۴، کے حواشی میں لکھا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جملہ بلاد اسلامیہ میں قرآن کے ایک ہی نسخہ کو پھیلانا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات پر متفق کرنا چاہا۔ مصحف عثمانی ہی قرآن کریم کا وہ کامل نسخہ ہے جو قرآن کریم کی اس قراء ت کے مطابق ہے جس کے مطابق سیدنا جبرائیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری مرتبہ قرآن کریم سنایا تھا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ کتابت قرآن کی خدمت انھیں سپرد کی جائے، آپ یہ بھی چاہتے تھے کہ قبل ازیں قرآن کا جو نسخہ وہ جمع کر چکے ہیں اسے باقی رکھا جائے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ دونوں باتیں تسلیم (