کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 537
حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خیر القرونِ قرنِی، ثم الذِین یلونہم ثم الذِین یلونہم۔ ))[سبق تخریجہ] ’’بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے؛ پھر جو اس کے بعد ہے؛ پھر جو اس کے بعد ۔‘‘ بعض راویوں کو شک ہے کہ آپ نے دو زمانے شمار کئے تھے یا تین؟ مقصود یہ ہے کہ اعمال کی فضیلت کا انحصار ان کی ظاہری صورت پر نہیں ، بلکہ ان کی روحانی کیفیت پر ہے جو کہ دل میں پنہاں ہوتی ہے۔ظاہرہے کہ لوگوں میں اس حساب سے میں بڑا فرق و امتیاز پایا جاتا ہے ۔ اس سے ان علماء نے احتجاج کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ہر صحابی بعد میں آنے والے ہر شخص سے افضل ہے۔ جمہور علماء اس مسئلہ میں متحد الخیال ہیں کہ جملہ صحابہ جملہ تابعین سے افضل ہیں ۔ البتہ اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا ہر صحابی ہر تابعی سے افضل ہے یا نہیں ؟ اسی قاعدہ کے مطابق کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے افضل ہیں یا نہیں ؟ قاضی عیاض رحمہ اللہ وغیرہ نے اس مسئلہ میں دو قول ذکر کیے ہیں ۔ اکثر علماء صحابہ کے ہر فرد کو ہر تابعی سے افضل قرار دیتے ہیں ۔حضرت عبد اﷲ بن مبارک اور احمد بن حنبل رحمہما اللہ سے یہی منقول ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگرچہ تابعین کے اعمال صالحہ صحابہ کے مقابلہ میں زیادہ ہیں ۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے زہد و عدل میں بڑھ کر تھے۔ مگر فضیلت کا انحصار حقیقت ایمان پر ہے جو کہ ایک قلبی چیز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو صحابہ کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ [سبق تخریجہ] اس نظریہ کے حامل علماء یہ کہتے ہیں کہ بلا شبہ بعض تابعین کے اعمال صحابہ سے بڑھ کر تھے، مگر ہم یہ کیسے معلوم کر سکتے ہیں کہ ان کا ایمان بھی صحابہ کے ایمان پر فائق تھا۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ متاخرین جو صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لائے اگر سونے کا پہاڑ بھی خرچ کریں تو اوّلین صحابہ کے نصف مد (ایک عربی پیمانہ جو کہ قریباً گیارہ چھٹانک کا ہوتا ہے ) کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ اس بات سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی وجہ سے لوگوں کو جو فائدہ پہنچا؛ یہ آپ کی فضیلت تھی کہ آپ نے لوگوں کے حقوق اداکیے اور عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کیا۔ا گر فرض کیا جائے کہ آپ نے لوگوں کو جو کچھ دیا وہ آپ کی ملکیت تھا اور آپ نے صدقہ کردیا۔ تاہم اس سے صحابہ کے انفاق فی سبیل اﷲ کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور احد پہاڑ جتنا سونا آئے کہاں سے کہ اسے خرچ کیا جا سکے؟ پھر جب کہ بفرض محال اسے خرچ بھی کیا جائے تو بقول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ نصف مد کے برابر بھی نہ ہوگا۔ علماء سلف رحمہم اللہ میں سے بعض کا قول ہے کہ:’’ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں جو غبار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی ناک میں داخل ہوا وہ عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ کے سب اعمال سے افضل ہے۔‘‘