کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 536
یہی حال تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے۔ انہیں صحبت کا شرف حاصل ہوا؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کیا ۔یہ ایسا ایمان و یقین تھا کہ بعد میں آنے والے اس میں ان کے شریک و سہیم نہیں ہوسکتے۔صحیح مسلم میں یہ ثابت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا یا۔آپ اکثر آسمان کی طرف سر مبارک اٹھایا کرتے تھے؛ اور فرمایا:
’’ستارے آسمان کے لیے باعث امن ہیں جب ستارے رخصت ہو جائیں گے تو آسمان سے جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا کر دیا جائے گا۔ا سی طرح میری ذات صحابہ کے لیے باعث امن وسکون ہے جب میں نہیں ہوں گا تو صحابہ موعود مصائب سے دوچار ہوجائیں گے۔ میرے صحابہ میری امت کے لیے باعث امن ہے جب میرے صحابہ رخصت ہو جائیں گے تو امن و امان اٹھ جائے گا۔‘‘[1]
احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک جماعت مصروف جنگ ہوگی۔ ان سے دریافت کیا جائے گا، کیا تم میں کوئی صحابی ہے؟ وہ کہیں گے ’’ہاں ‘‘ چنانچہ انھیں فتح نصیب ہو گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کر رہی ہو گی۔ اس سے پوچھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جس نے کسی صحابی کودیکھا ہو؟ کہیں گے:’’ ہاں ‘‘ چنانچہ ان کو فتح حاصل ہو گی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک جماعت مصروف پیکار ہو گی۔ اس سے پوچھا جائے گا کیا تم میں سے کسی نے کسی تابعی کو دیکھا ہے؟ کہیں گے:’’ہاں ‘‘ چنانچہ وہ فتح و نصرت سے ہم کنار ہوں گے۔[2]
حدیث ہذا کے تمام طرق میں تینوں طبقات (صحابہ تابعین، تبع تابعین) کا ذکر کیا گیا ہے۔ چوتھے طبقے کا ذکر بعض روایات میں ملتا ہے۔[3] متعدد روایات صحیحہ میں آیا ہے کہ آپ نے قرون ثلاثہ کی مدح و ستائش فرمائی۔[4]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد احادیث مبارکہ میں قرون ثلاثہ کے لوگوں کی مدح سرائی اور ثنا و تعریف ثابت ہے۔
[1] صحیح مسلم؛ ح:۲۵۳۱؛ المسندِ ط۔ الحلبِیِ 4؍398 ؛ عن أبِی بردۃ عن أبِی موسی الأشعرِیِ، ولکِنہ فِی مسلِم عن أبِی بردۃ عن أبِیہِ وہو ابن لأِبِی موسی الأشعرِیِ اسمہ الحارِث، وقِیل: عامِر، وقِیل: اسمہ کنیتہ، انظر: تہذِیب التہذِیبِ 12 18؛ تذِکرۃ الحفاظِ 1؍95، ونص الحدِیثِ فِی مسلِم 4؍1961؛ ِکتاب فضائل الصحابۃ، باب بیانِ ن بقاء النبِیِ صلی اللہ علیہِ وسلم أمان لأِصحابِہ۔ِ
[2] صحیح بخاری، کتاب الجہاد۔ باب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب (حدیث:۲۸۹۷)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم(حدیث:۲۵۳۲)
[3] صحیح مسلم، حوالہ سابق(حدیث:۲۰۹؍۲۵۳۲)
[4] صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۳۶۵۰، ۳۶۵۱)، مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم(ح: ۲۵۳۳۔ ۲۵۳۵)۔