کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 535
جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ دلوں کے احوال کی وجہ سے ظاہری اعمال کی قدرو قیمت بڑھتی اور کم ہوتی ہے۔ اور دلوں کے احوال میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ دلوں میں ایمان کی مقدار کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ بس انسان کو یہ جان لینا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ برحق ہے؛ اور احادیث کو ایک دوسری سے ٹکرانی کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتَوا وَقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُوْنَ ﴾۔[المؤمنون ۶۰] ’’اور جو دے سکتے ہیں وہ دیتے ہیں اور ان کے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔‘‘ ترمذی اور دوسری کتب احادیث میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا :’’یہ کام کر کے ڈرنے والے لوگ وہ ہیں جو زنا کرتے ہیں یا جو شراب پیتے یا چوری کرتے ہیں ؟ اور پھر سزا سے ڈرتے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے صدیق کی بیٹی یہ بات نہیں ! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے اور نمازیں پڑھتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اس کے باوجود اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ شاید ہمارے یہ عمل اللہ کے نزدیک (ہماری کسی کوتاہی کے سبب) قبول نہ ہوں ۔‘‘[رواہ احمد والترمذی و ابن ماجہ] صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی نہ دو؛ اللہ کی قسم ! اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[1] اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ایمان یہ مال خرچ کرتے وقت ابتدائے اسلام کے وقت ان کے دلوں میں تھا؛ جب کہ اہل اسلام بہت ہی کم تھے؛ اور اسلام سے بدگمان کرنے والے امور بہت زیادہ تھے؛ اسلام کی طرف رغبت کے اسباب بہت کمزور تھے۔تو کسی بعد میں آنے والے کے لیے ممکن نہیں ہے کہ ایسا اس کے لیے بعد میں بھی ہو۔ یہ امور وہ لوگ جانتے ہیں جو ایسے معاملات کا ذائقہ چکھ چکے ہوں اوروہ امتحان اورآزمائش سے دو چارہوچکے ہوں ۔ اور جو کچھ دلوں میں پیدا ہوتا ہے اس کے احوال مختلف ہوتے ہیں ۔ یہ ایسی بات ہے جس سے پتہ چل سکتا ہے کہ کوئی دوسرا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مانند ہو۔ اس لیے کہ جو ایمان و یقین آپ کے دل میں تھا کوئی دوسرا اس میں آپ کا شریک وسہیم نہیں ہوسکتا۔ ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حصہ میں جو فضیلت آئی وہ کثرت صوم و صلوٰۃ کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اس( صدق و خلوص) کی وجہ سے حاصل ہوئی جو آپ کے دل میں جا گزیں تھا۔‘‘
[1] بخاری ۔باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم’’ لو کنت متخذا خلیلاً‘‘(ح:۳۶۷۳) صحیح مسلم۔ باب تحریم سب الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم (ح: ۲۵۴۱)