کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 533
جہاں تک نظر پہنچے۔ اس سے کہا جائے گا۔ ان میں جو اعمال مندرج ہیں کیا تم ان میں سے کسی کے منکر ہو؟ وہ کہے گا، نہیں ، اے میرے رب! پھر اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے: تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر کاغذ کا ایک ٹکڑا ہتھیلی کے برابر لایا جائے گا جس میں ’’ لا الہ الا اللّٰہ‘‘ تحریر ہوگا۔ وہ شخص کہے گا، کاغذ کا یہ پرزہ ان رجسٹروں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ چنانچہ یہ پرزہ ایک پلڑے میں اور وہ رجسٹر دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں گے ۔ کاغذ کے پرزے والا پلڑا جھک جائے گا اور رجسٹروں والا پلڑا اوپر کو اٹھ جائے گا۔‘‘[1] اس میں مذکور ہے کہ اس کا عمل سب گناہوں پر چھا جائے گا، یہ اس شخص کا حال ہے جس کے اعمال صدق و اخلاص اور عجز و انکسار کے آئینہ دار ہوں ،ورنہ اہل کبائر جو دوزخ میں داخل ہوں گے وہ بھی کلمہ گو ہوں گے؛ مگر ان کا’’ لا الہ الا اللّٰہ‘‘ کہنا ان کے باقی اعمال سے بھاری نہیں ہوگا ؛ جیسے اس پرزے والے کا ’’ لا الہ الا اللہ‘‘کہنا اس کے باقی اعمال پر بھاری ہوگیا تھا۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ایک آدمی چل رہا تھا، اسی دوران میں اسے بہت سخت پیاس لگی؛اسے ایک کنواں نظر آیا؛ وہ اس کنویں میں اترا اور اس سے پانی پیا،جب کنویں سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کو بھی ویسی ہی پیاس لگی ہوگی جیسی مجھے لگی تھی۔ چنانچہ وہ اس کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھرا پھر اس کو منہ سے پکڑا پھر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا اللہ نے اس کی نیکی قبول کی، اور اس کو بخش دیا۔‘‘[2] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’ ایک کتا ایک کنویں کے گرد گھوم رہا تھا معلوم ہوتا تھا کہ پیاس سے مر جائے گا اتفاق سے کسی بدکار اسرائیلی عورت نے اس کتے کو دیکھ لیا اور اس زانیہ نے اپنا جوتا اتار کر کنویں سے پانی نکال کر اس کتے کو پانی پلا دیا؛اللہ تعالیٰ نے اس کو اسی بات پر بخش دیا۔‘‘[3]
[1] سنن ترمذی کتاب الایمان ، باب ما جاء فیمن یموت و ھو یشھد ان لا الہ الا اللّٰہ (حدیث:۴۳۰۰)، سنن ابن ماجۃ کتاب الزہد، باب ما یرجی من رحمۃ اللّٰہ یوم القیامۃ(حدیث:۴۳۰۰)؛ المسندِ 11؍197؛ وقال الشیخ أحمد شاکِر رحِمہ اللّٰہ: إِسنادہ صحِیح، وقال: ِإن الحاکِم رواہ فِی المستدرکِ 1؍529 وقال: ہذا حدِیث صحِیح الإِسنادِ ولم یخرِجاہ، ووافقہ الذہبِی۔ ونقلہ المنذِرِی فِی الترغِیبِ والترہِیبِ، وقال: رواہ التِرمِذِی وابن حِبان فِی صحِیحِہِ والحاِکم والبیہقِی۔ [2] صحیح بخاری:ج۱: ح۲۲۲۵؛3؍111؛ ِکتاب الشربِ والمساقاۃِ، باب فضلِ سقیِ الماء3؍132 ؛ کِتاب المظالِمِ، باب الآبارِ علی الطرقِ إِذا لم یتأذی بِہا؛ مسلِم 4؍1761؛ ِکتاب السلامِ، باب فضلِ ساقِی البہائِمِ المحترمۃِ وِإطعامِہا ؛ سننِ بِی داود 3؍33 ؛ِ کتاب الجِہادِ، باب ما یؤمر بِہِ مِن القِیامِ عل الدوابِّ والبہائِمِ ؛ الموطأ ِ 2؍929 ؛ ِکتاب صِفۃِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم، باب جامِعِ ما جاء فِی الطعامِ والشرابِ۔ [3] صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب(۵۴)، (حدیث:۳۴۶۷)، صحیح مسلم، کتاب السلام، باب فضل سقی البھائم المحترمۃ (حدیث:۲۲۴۵)۔