کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 532
اور ایک حدیث میں آتاہے :
’’ بسا اوقات روزہ دار کے حصہ میں پیاس کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا ۔اور بسا اوقات تہجد گزار کے لیے اس کے حصہ میں رات جگے کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا ۔‘‘ یہی حال حج اور جہاد کا بھی ہے ۔
سنن میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ایک موقوف روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ جہاد دو طرح کا ہے۔ ایک وہ جہاد ہے جو رضا الٰہی کی خاطر کیا جاتا ہے اور اس میں امام کی فرمانبرداری کی جاتی ہے اور بہتر سے بہتر مال اس میں خرچ کیا جاتا ہے ساتھی کے ساتھ نرمی برتی جاتی ہے۔ فساداورخیانت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ [پس ایسے جہاد میں تو سونا اور جاگنا بھی عبادت ہے]اس جہاد کے برابر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ دوسرا جہاد وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی مطلوب نہیں ہوتی؛اور نہ ہی امیر کی اطاعت کی جاتی ہے؛اور نہ ہی اچھا مال خرچ کیا جاتا ہے؛اور نہ ہی ساتھی کے ساتھ نرمی برتی جاتی ہے۔اور نہ ہی فساد سے اجتناب کیا جاتا ہے؛ اور نہ ہی خیانت سے بچا جاتا ہے۔[[یعنی جس میں فخر شامل ہو اور جو دکھانے اور سنانے کی غرض سے کیا جاتا ہے جس میں امام کی نا فرمانی ہو اور زمین میں فساد مطلوب ہو]] ایسے جہاد کا کوئی اجر نہیں ۔‘‘[1]
بعض سلف صالحین کے سامنے ذکر کیا گیا کہ حاجی بہت زیادہ ہوگئے ہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا:
’’ حاجی بہت کم ہوگئے ہیں اور بوجھ اٹھاکر چلنے والے بہت زیادہ ہوگئے ہیں ۔‘‘
بہرکیف گناہوں سے معافی ایسے اعمال کی بنا پر ملتی ہے جو بارگاہ ربانی میں مقبول ہوں ۔اکثر لوگ نیکیوں کے بجالانے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں ؛یہاں تک کہ نماز پڑھنے میں بھی کوتاہی کرتے ہیں ۔ وہ خوش نصیب آدمی ہو گا جس کی آدھی نماز قبولیت سے مشرف ہو۔ اندریں صورت کچھ گناہ مقبول نمازوں سے معاف ہو جائیں گے اور جو بچیں گے وہ جمعہ ورمضان سے معاف ہوں گے۔ معافی کا امکان صغائر و کبائردونوں قسم کے گناہوں میں ہے۔یہی حال سارے اعمال کا ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ ہر ایک نیکی ہر ایک گناہ کو مٹا دیتی ہے۔ بلکہ کبھی اس سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں اور کبھی کبیرہ گناہ ؛ یہ موازنہ کے اعتبار سے ہوتا ہے۔
ایک ہی قسم کا عمل کبھی انسان پوری طریقہ سے ادا کرتا ہے؛ اس میں کامل اخلاص اور عبودیت ہوتی ہے ؛ تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے کبیرہ گناہ بھی معاف فرمادیتے ہیں ۔
ترمذی اور ابن ماجہ میں سیدنا عبد اﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بروزقیامت میری امت کے ایک شخص کو لوگوں کے روبرو پکارا جائے گا۔ اس کے سامنے ننانوے رجسٹر کھول کر رکھ دیے جائیں گے جن میں اس کے اعمال قبیحہ درج ہوں گے، ہر رجسٹر وہاں تک پھیلا ہوا ہو گا
[1] سنن ابوداد:ج ۲ ، ح۷۵۰۔