کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 531
بعض لوگ اس سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ جب گناہ باقی نہ ہوں تو ان کے درجے بلند کیے جاتے ہیں ۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جن اعمال سے گناہوں کو معاف کیا جاتا ہے وہ اعمال مقبولہ ہیں ۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ (المائدۃ:۲۷) ’’ اﷲتعالیٰ متقیوں کے اعمال کو قبول کرتے ہیں ۔‘‘ علماء کے اس آیت کی تفسیر میں تین اقوال ہیں : ۱۔ خوارج و معتزلہ کا قول ہے کہ جو شخص کبائر سے بچتا ہے اسکے اعمال قبول کیے جاتے ہیں ۔ ان کے نزدیک صاحب کبائر کا کوئی عمل مقبول نہیں ۔پس ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کے مرتکب سے کوئی بھی نیکی کسی بھی طرح قبول نہیں کی جاتی۔ ۲۔ مُرجیہ کہتے ہیں جو شرک سے اجتناب کرتا ہے وہ متقیوں میں داخل ہے۔ اگرچہ وہ کبائر کا ارتکاب کرتاہو ۔ ۳۔ علمائے سلف و ائمہ کہتے ہیں کہ جو شخص خلوص دل سے اور خوف الٰہی سے کوئی کام کرتا ہے تو اس کا وہ عمل قبول کیا جاتا ہے۔ حضرت فُضَیل بن عیاض رحمہ اللہ اس آیت کریمہ﴿لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً﴾ ’’تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے ۔‘‘کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’احسن‘‘ سے مراد وہ عمل ہے جو شرعاً درست ہو اور خلوص پر مبنی ہو۔آپ سے پوچھا گیا کہ اس سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا:’’ عمل اگر پر خلوص بھی ہو مگر شرعاً درست نہ ہو تو وہ مقبول نہیں ہو گا اور اگر شرعاً درست ہو اور خلوص سے عاری ہو تب بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ عمل خالص کا مطلب یہ ہے کہ صرف اﷲکے لیے ہو اور شرعاً درست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سنت نبوی کے مطابق ہو۔ کبیرہ گناہ کا مرتکب جب کسی بھی عمل میں اللہ ڈرتے ہوئے خالص اس کی رضا کے لیے انجام دے تو اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت بخشتے ہیں ۔اور اگر اس سے کوئی افضل انسان کوئی عمل کرے ؛ مگر وہ اپنے اس عمل میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا یہ عمل قبول نہیں کریں گے ؛ اگرچہ کسی دوسرے عمل کو قبول بھی کرلیں ۔ بس اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول کرتے ہیں جو اس کے حکم کے مطابق ادا کیا جائے ۔سنن میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بعض آدمی نماز سے فارغ ہوتے ہیں اور ان کی نصف یا تہائی یا چوتھائی نماز لکھی جاتی ہے۔ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ بعض آدمیوں کو نماز کا دسواں حصہ (۱۰؍۱) نصیب ہوتا ہے۔[1] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تمھیں نماز[ روزہ، حج اور جہاد] میں سے صرف اسی عبادت کا ثواب ملے گا جو عقل و فہم سے ادا کرو۔‘‘
[1] سنن ابی داؤد۔ کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی نقصان الصلاۃ، (حدیث:۷۹۶)