کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 530
﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنجِیکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ oتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ oیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ [الصفِ:10 ۔ 12]
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمھاری ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچا لے ؟ تم اللہ اور اس کے رسو ل پر ایمان لاؤ اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔وہ تمھیں تمھارے گناہ معاف کردے گا اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اور رہنے کی پاکیزہ جگہوں میں ، جو ہمیشہ رہنے کے باغوں میں ہیں ، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یغفر لِلشہِیدِ کل شیء إِلا الدین۔۔))
’’ شہید کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں سوائے قرض کے ۔‘‘[1]
اور جو روایت میں آتا ہے کہ:’’ سمندر کے شہید کاقرض بھی معاف کردیا جاتا ہے۔‘‘
تو اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ قرض آدمی کا حق ہے ؛ جسے چکانا ضروری ہوتا ہے ۔
اور یہ بھی صحیح حدیث میں آتا ہے کہ :’’ عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ [2]
عاشوراء کے دن کا ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ اور اس طرح کی روایات بہت زیادہ ہیں ۔ ان حدیث کی شرح بہت زیادہ طوالت چاہتی ہے۔
آیات و احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اﷲتعالیٰ سب گناہ بخش دیتے ہیں ۔ نمازوں سے بھی گناہوں کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ نماز کے درمیانی اوقات میں جو گناہ ہوتے ہیں جب وہ نمازوں سے معاف ہو جاتے ہیں توپھر جمعہ، رمضان ، عرفہ و عاشوراء کے روزہ سے کون سے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔
[1] سنن ابنِ ماجہ 2؍928 ؛ ِکتاب الجِہادِ، باب فضلِ غزوِ البحرِ؛ وأولہ: سمِعت أبا أمامۃ یقول: سمِعت رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم یقول: وشہِید البحرِ مِثل شہِیدیِ البرِ، الحدِیث وفِیہِ: ویغفر لِشہِیدِ البِرِ الذنوب کلہا إِلا الدین، ولِشہِیدِ البحرِ الذنوب والدین۔ وقال الألبانِی فِی ضعِیفِ الجامِعِ الصغِیرِ 2؍251: موضوع۔ وتکلم علیہِ فِی سِلسِلۃِ الأحادِیثِ الضعِیفۃِ والموضوعِۃ 2؍222 ۔
[2] الحدِیث فِی إرواِء الغلِیلِ 4؍111 ؛ بِلفظِ: صوم یومِ عرفۃ یکفِر سنتینِ ماضِیۃ ومستقبلۃ، وصوم یومِ عاشوراء یکفِر سنۃ ماضِیۃ۔ وقال الألبانِی: رواہ الجماعۃ إِلا البخاری ولم یخرِجہ النسائِی فِی سننِہِ الصغری والظاہِر إنہ فِی سننِہِ الکبری، وہذا الحدِیث عن أبِی قتادۃ الأنصارِیِ رضِی اللّٰہ عنہ فِی: مسلِم 2؍818 ؛ ِکتاب الصِیامِ، باب استِحبابِ صِیامِ ثلاثِ أیام مِن کلِ شہر۔